وادی کشمیر میں حسب روایت ناجائز منافع خوری عروج پر پہنچ چکی ہے۔ حالیہ ایام میں گرمی کا پارہ چند ڈگری اُوپر کیا پہنچ گیا وادی بھر کے بازاروں میں سبزیاں، میوہ جات اور دیگر غذائی اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ۔ اسے المیہ سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ وادی کشمیر میں موسم کی رفتار کیساتھ ہی بازاروں میں غذائی اجناس کی ریٹ لسٹ میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے۔ چاہے دسمبر کی کڑاکے کی ٹھنڈ ہو یا جولائی کی جھلساتی دھوپ، یہاں بالآخر ناجائز منافع خوری کی ضربیں عام لوگوں پر ہی پڑتی ہیں۔انتظامیہ کی ناک کی سیدھ میں اس ناجائز منافع خوری سے صرف اُن افراد کی پانچوں انگلیاں گھی میں برقرار رہتی ہے جو حکام کی لاپرواہی کا پورا ادراک کرچکے ہیں، جنہیں یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ بازاروں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو کتنا ہی اُوپر کیا جائے، حکام اُن کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ اگرچہ عوامی حلقوں کی جانب سے ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے کیلئے ہزاروں اپیلیں کی گئیں تاہم آج تک زمینی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔انتظامیہ کے دعوے زمینی سطح پر ٹائیں ٹائیں فش ہی ثابت ہورہے ہیں کیوں کہ ہر گزرتے دن کیساتھ غذائی اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھوگئی ہوں بلکہ اس طرح کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے تاہم ملوث عناصر کی سرکوبی میں غفلت برتنے کی وجہ سے یہ معاملہ آئے روز سامنے آرہا ہے۔ محکمہ اُمور صارفین و عوامی تقسیم کاری اشیاء کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکا ہے کیوں کہ جو نرخ نامے محکمہ کی جانب سے شائع کئے جاتے ہیں وہ بس دکانات پر آویزان دیکھے جاسکتے ہیں۔عوام کی جانب سے ہزاروں مرتبہ شکایات کے بعد بھی محکمہ اُمور صارفین اس معاملے میں کوئی قدم اُٹھانے میں ناکام ہوا ہے۔محکمہ اُمور صارفین کے وہ خصوصی اسکوارڈ محض چند دنوں کی آوارہ گردی کرکے اپنی موجودگی کا احساس اخبارات کی سرخیوں میں دلاتے ہیں تاہم اُن کی چند دنوں کی سرگرمیاں محکمہ پر کئی مہینوں تک دوبارہ جمود طاری کردیتا ہے۔ہماری بحیثیت قوم یہ بدقسمتی رہی ہے کہ جب بھی یہاں حالات موسمی اعتبار سے تبدیل ہوتے ہیں تو بازاروں میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔وادی کے بازاروں میں فی الوقت ٹماٹر کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہے جس کے نتیجہ میں یہ عام آدمی کے بجٹ سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ موجودہ موسمی صورتحال میں ایسے مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کی پانچوں انگلیاں گھی میں دکھائی دے رہی ہیں کیوں کہ ہر آنیوالے دن یہ عناصر خود ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں طے کرکے غریب عوام کی جیب کاٹنے میں مصروف عمل ہے۔ حیرانگی اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسے عناصر کی سرکوبی کیلئے کوئی خاص قانون نافذ نہیں ہے۔ اگرچہ وقتی طور پر ایسے عناصر کی دوکانیں سیل ہونے کیساتھ ساتھ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے لیکن چند گھنٹے گذرنے کے ساتھ ہی یہ عناصر سینہ ٹھوک کر دوبارہ بازاروں میں نمودار ہوکر عوام پر مزید ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ حکام کو چاہیے کہ جس طرح دیگر معاملات میں کسی بھی خلاف ورزی کرنے پر قانون بنائے گئے ہیں اسی طرح اشیائے ضروریہ کی سرکاری قیمتوں سے انحراف کرنے پر ملوث عناصر پر شکنجہ کس لینا چاہیے تاکہ سادہ لوح صارفین کیساتھ ہورہی ناانصافی پر لگام لگائی جائے۔