سری نگر، 27 جنوری //
وادی کشمیر کی قدرتی رعنائی و خوبصورتی جہاں ایک طرف دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے وہیں مثالی فن پارے معرض وجود میں لانے کے عوض میں یہاں کے کاریگر بھی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر اعلیٰ درجے کے اعزازات حاصل کر رہے ہیں۔سری نگر کے صفا کدل علاقے سے تعلق رکھنے والے عمر رسیدہ کاریگر غلام نبی ڈار کو امسال ووڈ کارونگ میں عدیم المثال فن پارے معرض وجود میں لانے کے اعزاز میں حکومت نے پدم شری کے اعلیٰ درجے کے ایوارڈ سے سر فراز کیا ہے۔موصوف کاریگر اخروٹ کی لکڑی پر دلکش و مسحور کن نقش و نگاری کرکے ایسے فن پارے وجود میں لاتا ہے کہ جنہیں دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے ہیں۔کمسنی میں ہی ووڈ کارونگ کے فن کے وسیع و بسیط سمندر میں غوطہ زن ہونے سے لے کر نادر و نایاب جواہرات کے حصول تک انہیں کئی تلاطم خیز موجوں سے نبر د آزما ہونا پڑا۔چنانچہ غلام نبی ڈار کہتے ہیں: ‘میں زیادہ سے زیادہ دس برس کا تھا جب میں نے یہ فن سیکھنا شروع کیا لیکن اس کے ماہر کاریگر دستیاب نہیں تھے گرچہ ایک دو کاریگروں کے پاس میں نے زانوئے ادب تہہ کئے لیکن وہ اس دن کے اسرار و رموز سے بخوبی واقف نہیں تھے’۔انہوں نے کہا: ‘میں ان کے علاوہ بھی کچھ کاریگروں کے پاس گیا لیکن وہ مجھے یہ فن سکھانے میں کنجوس ثابت ہوئے اور مجھے واپس ہی بھیج دیا’۔ان کا کہنا تھا: ‘گھر کے مالی حالات بدتر ہونے کے میں نے فیس نہ ملنے کی وجہ سے تعلیم ادھوری ہی چھوڑ دی تھی اور ووڈ کارونگ سیکھنے کی جستجو میں تھا؛۔موصوف کاریگر نے کہا کہ ایک کاریگر سے اس فن کے کچھ رموز سیکھنے کے بعد میں نے خود محنت کی۔انہوں نے کہا: ‘میں اس فن کے ساتھ دیوانہ وار محبت کرتا تھا،میں نے تھوڑا بہت سیکھنے کے بعد خود محنت کی اور اس فن کے سمندر میں پوری طرح سے غرق ہوگیا اور بالآخر میری محنت رنگ لائی اور آج میں بہتر سے بہتر فن پارے وجود میں لاتا ہوں’۔ان کا کہنا تھا: ‘بڑھاپے کی وجہ سے آج میں صرف ووڈ کارون ہی کرتا ہوں اور اس طرح اپنے شوق اور جوش و جذبے کو آگے بڑھا رہا ہوں’۔غلام نبی ڈار کہتے ہیں: ‘میں نے ڈائننگ ٹیبل، صوفے اور بیڈ وغیرہ بنائے ہیں اور اس کے علاوہ میں مختلف قسموں کی آرائش و زیبائش کی چیزوں کو بھی تیار کرتا ہوں’۔پدم شری ان کا پہلا ایوارڈ نہیں ہے بلکہ اس قبل بھی کئی اعزازات سے سرفزاز کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔انہوں نے کہا: ‘پدم شری میرا پہلا ایوارڈ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی مجھے اعزازات سے نوازا گیا ہے’۔ان کا کہنا تھا: ‘سال 1984 میں مجھے سٹیٹ ایوارڈ جبکہ سال 1995 -96 میں مجھے قومی ایوارڈ سے نوازا گیا مجھے جرمنی میں بین الاقوامی سطح کا بھی ایک ایوارڈ ملنے والا تھا لیکن وہ بعض وجوہات کی بنا پر نہیں مل سکا’۔انہوں نے کہا: ‘حکومت کی طرف سے ایوارڈ ملنے سے ایک کاریگر کی حوصلہ افزائی ضرور ہوتی ہے میں شکر گذار ہوں میری کئی بار حوصلہ افزائی کی گئی’۔موصوف کاریگر کے فرزند عابد نبی نے یو این آئی کو بتایا: ‘گذشتہ دو چار مہینوں سے ہماری ویری فکیشن ہو رہی تھی لہذا ہم سمجھتے تھے کہ کوئی ایوارڈ ملنے والا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ پدم شری جیسا اعلیٰ درجے کا ایوارڈ ملنے والا ہے’۔انہوں نے کہا: ‘میں بھی یہ کام اپنے والد کے ساتھ کرتا ہوں’۔غلام نبی ڈار اس فن کو نئی نسل کو منتقل کرنے کے آرزو مند ہیں تاکہ یہ فن زندہ بھی رہ سکے اور بے روزگاروں کے لئے روزگار کا وسیلہ بھی بن سکے۔انہوں نے کہا: ‘ووڈ کاورنگ ایک وسیع فن ہے میں خود ابھی سیکھ ہی رہا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ نوجوان میرے پاس آئیں تاکہ میں اس فن کے اسرار و رموز سکھا سکوں جس سے ان کو روز گار بھی ملے گا اور یہ فن زندہ بھی رہے گا’۔انہیں اس بات پر شکوہ ہے کہ نئی نسل اس خوبصورت فن کی طرف متوجہ نہیں ہے اور شاید ہی کوئی نوجوان اس کو سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘میں گذشتہ زائد از 6 دہائیوں سے اس فن کے ساتھ وابستہ ہوں اور اس سے خوش بھی ہوں یہی میری روزی روٹی کا وسیلہ ہے لیکن اس کے مستقبل کے لئے فکر مند ہوں’۔