شہر سرینگر کیساتھ ساتھ وادی کے دیگر حصوں میں آوارہ کتوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ کتوں کی بڑھتی نسل کی وجہ سے روزانہ وادی کے شمال و جنوب سے کتوں کے ذریعے کاٹنے کے واقعات موصول ہورہے ہیں جو کہ تشویش ناک بات ہے۔ اگر چہ اس سلسلے میں متعلقہ ادارہ یعنی سرینگر میونسپل کارپوریشن اور دیگر متعلقہ ایجنسیاں ان کی بڑھتی نسل پر جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانے میں ذمہ دار تھے تاہم وہ فی الحال اس میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد اور اُن کی ہڑبھونک سے عام لوگوں کیساتھ ساتھ طلبہ و طالبات بالخصوص نونہالوں کا چلنا پھرنا دو بھر ہوچکا ہے۔شہر سرینگر میں جہاں جہاں میونسپل کارپوریشن کے کوڈے دان نصب کئے گئے ہیں وہاں آوارہ کتوں نے اپنا ڈیرہ جماکر عام لوگوں کی نقل و حمل میں پریشانیاں پیدا کردی ہیں۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے کتوں کو ہلاکت پر پابندی عائد کی جاچکی ہے تاہم دیگر ذرائع کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے جس کی قانون میں وسیع گنجائش موجود ہے۔ آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد اور ان کی جارحیت کو روکنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر ان کی نس بندی کی جاسکتی ہے ۔ ماضی قریب میں سرینگر میونسپل کارپوریشن نے کتوں کی نس بندی کیلئے ایک جدید ترین مرکز قائم کرنے کا منصوبہ بھی مرتب کیا تھا لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہ ہوسکا اور یوں منصوبہ کاغذات تک ہی محدود رہا۔ شوہامہ گاندربل میں قائم اس طرح کا ایک مرکز پہلے سے ہی موجود ہے تاہم یہاں جدید سہولیات کا بڑے پیمانے پر فقدان پایا جارہا ہے۔چند دنوں تک یہاں محض درجنوں کتوں کی نس بندی کرائی گئی تاہم بعد میں منصوبے کو پس پشت ڈالا گیا اور یوں آوارہ کتوں کو کھلے عام جارحیت کی اجازت دیتے ہوئے سینکڑوں معصوموں کی زندگیوں کو ہلاکت میں ڈالا گیا۔شہر سرینگر جو گرمائی دارالحکومت کا قلب ہے میں ایسے انتظامات ہوں تو دیہی علاقوں کا تو خدا ہی حافظ ہے جہاں عام لوگوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔وادیٔ کشمیر میں آوارہ کتوں کے تشدد میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن ان بڑھتے واقعات کے تئیں انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔پارلیمنٹ نے اس حوالے سے قانون بنایا جس کی رو سے آوارہ کتوں کی ہلاکتوں پر پابندی تو عائد کردی گئی لیکن ان کی تعداد کو قابو کرنے کیلئے نس بندی جیسے دیگر ذرائع کی آزادی برقرار رکھی گئی مگر ستم ظریفی یہ کہ جموںوکشمیر میں انتظامیہ نے جہاں ایک جانب بستیوں کے اندر پھیل رہی اس موذی مخلوق کا صفایا کرنے کا کام بند کردیا وہیں دوسری جانب بار بار کی یقین دہانیوں اور اعلانات کے باوجود نس بندی کا کوئی منظم پروگرام عمل میں نہیں لایا گیا۔فی الوقت یہ مسئلہ عوام کیلئے دردسر ہی نہیں بلکہ ایک مصیبت اختیار کرچکا ہے۔متعلقہ محکمہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر تحریک پیدا کرکے اس حساس مسئلہ کیساتھ نپٹنے کیلئے ٹھوس پالیسی تشکیل دے کر عوام کو راحت کا سامان مہیا کرے۔