ضلع بڈگام کے دُور دراز گاوٴں میں غلام نبی شاہ کا خاندان برسوں انتظار کے بعد اپنے مکان کی اُن کھڑکیوں کو دوبارہ کھول سکتے ہیں۔ یہ وہ کھڑکیاں ہیں جنھیں اُن کے پڑوسی عبدالغنی شیخ نے مقامی عدالت میں شکایت کے بعد بند کروا دیا تھا۔
شیخ کا اعتراض تھا کہ مکان کی دوسری منزل کی کھڑکیوں سے اُن کے صحن اور مکان پر نظر پڑتی ہے جس سے اُن کی پرائیویسی مجروح ہوجاتی ہے اور مکان کی چھت سے برف اُن کے یہاں گِر سکتی ہے۔
بڈگام کی مقامی عدالت نے 2018 میں کھڑکیاں بند کرنے اور چھت کا رُخ بدلنے کا حکم سُنایا تو غلام نبی شاہ نے سیشن کورٹ میں اپیل کر دی تاہم سیشن جج نے فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کھڑکیاں بند کرنے کا حکم دہرایا۔
2019 میں غلام نبی نے جموں کشمیر ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی تو پانچ سال تک بیسیوں سماعتوں کے بعد گذشتہ روز ہائیکورٹ کے جج اتُل سری دھرن نے پرائیویسی کے اعتراض کو بے بنیاد قرار دے کر کہا ’کوئی اپنی زمین میں مکان بنا کر اُس میں کھڑکیاں تو رکھے گا ہی، اگر پڑوسی کو لگتا ہے کہ اس کی پرائیویسی کو خطرہ ہے تو وہ پردے ٹانگ دے یا دیوار اونچی کردے۔‘
قابل ذکر ہے کہ حتمی سماعت کے لیے نہ عبدالغنی شیخ حاضر ہوئے نہ اُن کے وکیل۔ شیخ نے بتایا ’ہمارے وکیل کی ماں بیمار تھی، وہ کئی سماعتوں پر موجود نہیں تھا۔ ہائیکورٹ نے فیصلہ تو سُنایا لیکن ہمیں انصاف نہیں ملا۔۔۔۔ تاہم جج نے ایکس پارٹی فیصلہ سنا دیا جس کا مطلب ہے کہ اعتراض کرنے والے نے اپنی مرضی سے سماعت میں شرکت نہیں کی جبکہ اُسے نوٹس بھی دیا گیا تھا۔‘
غلام نبی شاہ نے بتایا کہ ’میرا مکان دہائیوں سے بنا ہے۔ یہ 15 سال تک ایک منزلہ مکان تھا، میں نے دوسری منزل پر کام شروع کیا تو پڑوسیوں نے مقامی عدالت سے اس پر عدالت میں شکایت کی جس کے بعد عدالت نے چھت کا رُخ موڑنے اور کھڑیاں بند کرنے کا حکم دیا۔‘
شاہ کہتے ہیں کہ اس حکم کے بعد انھوں نے چھت کا رُخ موڑ دیا تاہم کھڑکیوں کو بند کرنے کے فیصلے کو انھوں نے سیشن کورٹ میں چیلنج کیا تو وہاں سابقہ فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کھڑکیاں بند ہی رکھنے کا حکم دیا گیا۔
اُن کا کہنا ہے کہ چھت کا رُخ انھوں نے اُسی وقت موڑ دیا تھا ’لیکن کھڑکیوں کے بغیر میری فیملی کیسے رہے گی۔‘
دوسری طرف عبدالغنی شیخ اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ’یہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ سب کے گھروں میں بہو بیٹیاں ہوتی ہیں۔ صرف چار فٹ کے فاصلے پر دوسری منزل کی کھڑکیاں ہوں گی، کیا یہ انصاف ہے؟‘
غلام نبی اور عبدالغنی دونوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے پانچ سال تک کافی پیسہ خرچ کیا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے معاملے عدالتوں میں دہائیوں تک کیوں پڑے رہتے ہیں۔
- بی بی سی اُردو ، سرینگر