سرینگر/18 اگست// وادی کشمیر میں مرغ ، ہنس اور بطخ پالنے کا رجحان ختم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے 95 فیصدی پولٹری باہر کی منڈیوں سے لانی پڑتی ہے جبکہ 90 کی دہائی تک باہر کی منڈیوں سے صرف 5 فیصدی پولٹری درا?مد کرنی پڑتی ہے۔لوگ گھروں میں بطخ، ہنس اور مرغ پالتے تھے جس سے دیہی اور شہری علاقوں کے رہنے والے لوگوںکی آمدنی بھی بڑھتی تھی اور بازاروں میں دیسی مرغ ، دیسی انڈے وغیرہ ہر وقت دستیاب ہوا کرتے تھے جو کسی ملاوٹ کے بغیر مقوی غذائیت سے بھر پور تھے۔ وائس آف انڈیا کے مطابق وادی کشمیر میں گزشتہ تیس برسوں کے دوران جہاں حالات نے مختلف ادوار دیکھے اور بہت سی تبدیلیاں رونماء ہوئی ہے وہیں شہری اور دیہی علاقوں میں 90کی دہائی تک گھروں میں مرغ ، ہنس اور بطخ پالنے کا رواج عام تھا۔ یہ بطح اور مرغ ہر وقت لوگوںکی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔ کسی خاص مواقعے ، تہواروں ،عید اور دیگر اہم دنوں پر گھروں میں پائے جانے والے مرغ ہی استعمال ہوا کرتے تھے اور قریب ہر گھر میں مرغ پالنے کا رواج عام تھاجس کی وجہ سے باہر کی منڈیوں سے پولٹری کی درآمدگی محض 90 فیصدی تھی تاہم 2000 سنہ سے شہری و دیہی علاقوں میں مرغ، ہنس اور بطخ پالنے کا رواج کم ہوتا گیا اور آج محض 5فیصدی لوگ ہی شوقیہ بطخ اور مرغ گھروں میں پالتے ہیں اور اس کی وجہ سے اب پولٹری کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے باہر کی منڈیوں سے 95 فیصدی پولٹری درآمد کی جاتی ہے۔ گھروں میں دیسی مرغ پالنے کا چلن صرف ایک رواج نہیں تھا بلکہ یہ کئی لوگوں کیلئے روزگار کا بھی ذریعہ تھا۔ گائوں اور دیہات سے مرغ اور دیسی انڈے قصبوں اور شہر میں فروخت ہوا کرتے تھے لیکن اب بسیار ڈھونڈنے کے باوجود بھی کہیں پر نہ ہی دیسی انڈے ملتے ہیں اور ناہی دیسی مرغ کہیں دستیاب ہوتاہے۔ اس ضمن میں وی او آئی نمائندے امان ملک نے ایک بزرگ شہری غلام قادر ملک کے ساتھ جب بات کی تو انہوںنے بتایا کہ پہلے کے زمانے میں لوگ مقوی اور غذائیت سے بھر پور قدرتی غذاکھانے کے عادی تھے لیکن اب لوگ مصنوعی اشیاء کھاتے ہیں جو کمیکل کے استعمال سے تیار ہوتے ہیں اور آج کے لوگ ’’انگریز ٹائپ‘‘ ہوئے ہیں جو مرغ ، ہنس اور بطخ پالنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔