سرینگر /نامہ نگار //سرینگر کے ایک معروف تعلیمی ادارے دلی پبلک سکول میں مالی بے ضابطگیو ں کا سنسنی خیز انکشاف ہواہے جسکے پیش نظر فی فکزیشن کمیٹی نے یوٹی انتظامیہ سے کہا ہے کہ سکول کے مالی معاملات کی جانچ کے لئے ایک آزاد اور بااختیار اتھارتی مقرر کرکے دوماہ کے اندر اندر کمیٹی کو رپورٹ پیش کی جائے۔کمیٹی کے چیرپرسن مظفر حسین عطار جنہوں نے اس سے قبل جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں سینئر جج کے بطور فرائض انجام دئے ہیں نے اس حوالے سے ایک حکمنامہ زیر نمبر 636جاری کیا ہے جس میںانکشاف کیا گیا ہے کہ دلی پبلک سکول اتھواجن سرینگرکوایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بڑے پیمانے پر پیسہ کمانے کے لئے چلایاجارہاہے۔ حکمنامے میں چند اہم نکات کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے ظاہر ہوتاہے کہ سکول سپریم کورٹ احکامات اور سرکاری احکامات کے برعکس تجارتی سرگرمیوں کی جانب گامزن ہے۔ حکمنامے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وجے دھراور انکی اہلیہ کرن دھر نے سال 2003میں ڈی پی دھر میموریل ٹرسٹ کے تحت دہلی پبلک سکول اتھواجن قائم کیاجبکہ انکے دو بیٹوں کو بھی بطور ٹرسٹی شامل کیاگیا۔ریکارڈ سے پتہ چلاہے کہ وجے دھر اور انکی اہلیہ کرن دھر اور چند مخصوص افراد ڈی پی دھر میموریل ٹرسٹ کو ایک منصوبہ بند طریقے پرمالی تعاون دیتے ہیں اور اسکے عوض 12فیصدی شرح کے حساب سے سود وصول کرتے ہیںجو کسی بھی بنک کی شرح سود سے زیادہ ہے ۔حکمنامے کے مطابق گذشتہ تین سال کے دوران سکول کو ہر سال 40کروڑ سے پچاس کروڑ کی آمدنی حاصل ہوئی ہے ۔ لیکن اسکے باوجود ہر سال چند مخصوص افرادسے سکول کے لئے قرضہ حاصل کیا جاتاہے اوربدلے میں اس سے کہیں زیادہ رقم انہیں واپس دی جاتی ہے ۔اس حکمنامے پر بورڈ کی سیکریٹری منیشا سرین اور ڈائریکٹر سکول ایجوکیشن کشمیر تصدق حسین میر نے بھی دستخط کئے ہیںجوفی فکزیشن کمیٹی کے رکن بھی ہیں ۔ حکمنامے میں پوچھا گیا ہے کہ اس سوال کا جواب تلاشنے کی ضرورت ہے کہ اتنی زیادہ آمدنی والے سکول کو کس وجہ سے قرضہ لینے کی ضرورت پیدا ہوئی ہے ۔ سکول ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ اس قرضے پر 12فیصدی کے حسا ب سے سود دیا جاتاہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ یہ قرضہ سکول کے ٹرسٹیز اور مالکان سے حاصل کیا جاتاہے ۔ حالانکہ 12فیصدی شرح سود سے تجارتی ادارے بھی سود وصول نہیں کرتے ۔ حکمنامے میں سوال کیاگیا ہے کہ اگر سکول کو مالی تعاون کی واقعی ضرورت ہوتی تو یہ تعاون کسی مالیاتی ادارے یا بنک سے بہت کم سود پر حاصل کیاجاسکتاتھا۔ کیونکہ ایک تعلیمی ادارے جس کا مقصد خیراتی عمل کے تحت تعلیم فراہم کرنا ہے کو بہت کم سود پر قرضہ مل سکتاہے۔کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ سکول کی زمین کے لئے ایک موٹی رقم بطور کرایہ وصو ل کی جاتی ہے جو کہ سکول ٹرسٹ کے ممبران کی جیبوںمیں ہی چلی جاتی ہیں کیونکہ زمین کے مالکان بھی وہی ہیں۔کمیٹی نے کہا ہے کہ سکول کی مرمت کے نام پرصرف ایک سال کے اندر ایک کروڑ روپے کا خرچہ دکھایاگیاہے جوناقابل یقین ہے ۔سکول ریکارڈ کے مطابق قریب 11کاریں سکول کے لئے خریدی گئی ہیں تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کاریں کس کے لئے خریدی گئیں ہیں اورایک سکول کے لئے اتنی کاریں خریدنے کی کیاضرورت ہے۔ کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ 18لاکھ سے زیادہ کی رقم ہوسٹل اور کھانے پینے کے اخراجات پر خرچ کی گئی ہے جبکہ سکول اقامتی نہیں ہے ۔ اسی طرح تشہیر ، سفر ی اخراجات اور کاروں کے اخراجات پر بھی موٹی رقمیں خرچ کی گئی ہیںجو سکول کے خرچہ جات سے میل نہیں کھاتی۔ حکمنامے میں کہاگیاہے کہ بظاہر سکول ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیسہ کمانے کے لئے چلایا جاتاہے ورنہ اتنی موٹی رقومات صرف بڑے بڑے تجارتی اداروں سے حاصل کرناہی ممکن ہے ۔جسٹس مظفر حسین عطار نے کہا ہے کہ فی فکزیشن کمیٹی قانونی ذمہ داریوں کے تحت پابند ہے کہ تعلیم کو تجارت میں بدلنے کی روک تھام کی جائے ۔ حکمنامے میں سکول ایجوکیشن ایکٹ 2002کے تقدس کی بحالی اور سپریم کورٹ کے پے در پے احکامات کاحوالہ دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ ان احکامات میں تعلیم کوتجارت میں بدلنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ چئیرپرسن مظفر حسین عطار نے کہا ہے کہ جوحقائق سامنے آئے ہیں ، انکے لئے ڈی پی ایس اتھواجن کے مالی معاملات کی جانچ لازمی بن گئی ہے ۔انہو ں نے یوٹی انتظامیہ سے کہا ہے کہ سکول کے مالی معاملات کی جانچ کے لئے آزادانہ اتھارٹی تشکیل دی جائے جو اس حکمنامے کے اندراجات کومد نظر رکھ کرسکول ریکارڈ کی جانچ کرکے دوماہ کے اندر اندراپنی رپورٹ فی فکزیشن کمیٹی کو پیش کرے ۔سکول فیس میں اضافے کی درخواست کومسترد کرتے ہوئے سکول انتظامیہ کوہدایت دی گئی ہے کہ سکول کو سال 2018-19کی فیس پر چلانے کی اجازت دی گئی ہے ۔ سکول کوہدایت دی گئی ہے کہ رفنڈیبل فیس، ایڈمیشن فیس اور دیگر ناموں پر فیس وصولنے کی قطعاٍ اجازت نہیں ہوگی ۔