اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گوتریس نے آنے والی ’موسمیاتی تباہی‘ کے حوالے سے خبردار کیا ہے جبکہ ماحولیاتی مہم جو گریتا تھنبرگ نے ہفتے کو کوپ 26 موسمیاتی کانفرنس میں ہونے والے معاہدے کو مسترد کردیا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جن ممالک کے نمائندگان نے گلاسگو میں معاہدے کا خیر مقدم کیا ان کا کہنا ہے کہ ابھی ماحول سے متعلق بہت کام کرنا باقی ہے۔گلاسگو کانفرنس میں ہونے والے معاہدے کے بعد ایک بیان میں انتونیو گوتریس نے اعتراف کیا کہ معاہدے میں بہت سی خامیاں ہیں۔انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’کوپ 26 کا معاہدہ ایک سمجھوتہ ہے جو دنیا کے مفادات، تضاد اور ریاست کے سیاسی خواہشات کی عکاسی کرتا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک اہم اقدام ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے‘۔انہوں نے خبردار کیا کہ ’ہمارے نازک سیارے پر خطرات منڈلا رہے ہیں‘۔انتونیو گوتریس نے کہا کہ ’ہم اب بھی ماحولیاتی تباہی کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں‘۔اس ہی ٹوئٹ کی پیروی میں کیے جانے والے ایک اور ٹوئٹ میں اقوام متحدہ کے سربراہ نے نوجوان افراد، مقامی برادریوں، خواتین رہنما اور وہ تمام لوگ جو ’موسمیاتی تبدیلی‘ سے متعلق مہمات کی قیادت کر رہے ہیں، ان سب کو ایک پیغام بھیجا۔انہوں نے کہا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ آپ مایوس ہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں سے لڑ رہے ہیں اور یہ لڑائی ہمیں لازمی جتنی ہے‘۔دنیا میں ماحولیاتی مہم چلانے والی گریتا تھنبرگ نے معاہدے کے حوالے سے زیادہ دوٹوک مؤقف دیا۔انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ’کوپ 26 ختم ہوگئی اور اس کا خلاصہ بڑھکیں مارنا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’لیکن نیا کام ان ہالز کے باہر سے شروع ہوتا ہے اور ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے‘۔کانفرنس کے دوران گریتا تھنبرگ اور دیگر سماجی رہنماؤں نے اس لائحہ عمل کی مذمت کی اور کہا کہ دنیا کے قائدین اپنے الفاظ اور عمل کو یکساں بنانے میں ناکام ہوگئے ہیں‘۔برطانوی صدر بورس جانسن نسبتاً پُرامید رہے۔بورس جونسن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے آئندہ سالوں میں بہت کچھ کرنا ہے‘۔انہوں نے کہا کہ ’لیکن آج کا معاہدہ ایک بڑا اقدام تھا اور تنقیدی طور پر ہمارے پاس یہ پہلا معاہدہ ہے جو کوئلے کو مرحلہ وار کم کرنے اور گلوبل وارمنگ کی حد 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کا راستہ ہے‘۔یورپی کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ اس معاہدے کا ہدف 2015 میں ہونے والے پیرس موسمیاتی معاہدے کو برقرار رکھنا ہے ’جو ہمیں گوبل وارمنگ کی حد 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود کرنے کا موقع دیتا ہے‘۔کمیشن کی صدر اُرزولا وان ڈیر لاین نے کانفرنس کے مندوبین کو کہا کہ اپنے عزم پر کام کریں تاکہ خطرناک اخراج کو کم کیا جاسکے اور سالانہ ایک کھرب روپے جمع کریں تاکہ خطرات میں گھرے اور ترقی پذیر ممالک کی مدد کی جاسکے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ پُرسکون ہونے کا وقت نہیں ہے، اب بھی ہمیں سخت محنت کرنی ہے‘۔حتمی گفتگو کے دوران چین اور بھارت نے زور دیا کہ کوئلے جیسے حیاتیاتی ایندھن پر گفتگو کو کانفرنس کے حتمی متن میں خارج کیا جائے‘۔یاد رہے حال ہی میں آسٹریلوی حکومت نے آئندہ کئی دہائیوں تک کوئلہ فروخت کرنے کا عزم کیا ہے۔تاہم آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم و ایشیا سوسائٹی کے موجودہ صدر کیون رڈ اب بھی پُرامید ہیں۔