سوڈان کے اعلیٰ جنرل کی جانب سے وزیر اعظم کو معزول کرنے کے تقریباً ایک ماہ بعد اتوار کو فوج سے اقتدار واپس لینے کے لیے ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے گئے جس نے بین الاقوامی مذمت اور بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا تھا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق فوج کی جانب سے ملک کا اقتدار پر قبضے کے بعد شہری شدید غصے کا شکار تھے اور ملک میں لاکھوں افراد نے ریلیاں نکالیں، جس میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ’انہیں فوجی اقتدار نہیں چاہیے‘ اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوج مکمل طور پر اقتدار سے پیچھے ہٹ جائے۔خرطوم کے صدارتی محل میں ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی تقریر کے لیے آنے والے اعلیٰ جنرل عبدالفتح البرہان کے ہمراہ وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک بھی تھے جنہیں کئی ہفتوں سے گھر میں نظر بند رہنے کے بعد چند دن قبل ہی رہا کیا گیا ہے۔14 نکات پر مبنی معاہدے کے تحت ملک کا اقتدار سول حکومت کو دوبارہ منتقل کردیا گیا تھا، سول حکومت کو 25 اکتوبر کو ختم کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے شمالی افریقی ملک کو دوبارہ ہنگامہ آرائی کا سامنا تھا۔یہ معاہدہ سوڈانی و دیگر عہدیداران کی گفتگو کے بعد کیا گیا، جس میں اعلان کیا گیا کہ ’عبوری وزیر اعظم کو ان کے عہدے پر بحال کرتے ہوئے ان کی ذمہ داریاں منسوخ کرنے کا فیصلہ مسترد کردیا گیا ہے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کردیا گیا ہے‘۔سوڈان میں مکمل جمہوریت کی طرف منتقلی کا مرحلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا ہے، یہاں 2019 میں تجربہ کار آمر عمر البشیر کا اقتدار ختم ہونے پر جمہوریت کا دور شروع ہوا تھا۔علاوہ ازیں کمزور دکھائی دینے والے عبداللہ ہمدوک نے عوامی طاقت کے ’انقلاب‘، جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آئے، کی تعریف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کی ترجیح ’سب سے پہلے سوڈان میں خون ریزی کو روکنا ہے‘۔جنرل عبدالفتح برہان نے عبداللہ ہمدوک کی خدمات پر شکریہ ادا کیا گیا اور عزم کیا کہ عبوری عمل کے بعد ملک میں ’آزاد اور شفاف انتخابات‘ کا انعقاد کیا جائے گا۔بحال وزیر اعظم اور اپنے نائب پیراملٹری ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ محمد ہمدان داگلو کے ہمراہ تصاویر بنوانے سے قبل عبد الفتح برہان کا کہنا تھا ’جب تک ہم اس لمحے تک نہیں پہنچے انہوں نے ہمارے ساتھ صبر کیا‘۔اقوام متحدہ نے اس معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’آزادی رائے اور پُرامن اسمبلی جیسے سیاسی عمل کی بنیادی آزادی کی حفاظت کے لیے آئینی احکامات کا تحفظ لازمی ہے‘۔دوسری جانب خرطوم سمیت ملک کے مختلف شہروں میں اقتدار کی منتقلی کے خلاف لاکھوں افراد نے ریلیاں نکالی تھیں جن کے خلاف سیکیورٹی فورسز نے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا، طبی سہولیات فراہم کرنے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مظاہروں میں 40 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ادھر پولیس نے فائرنگ اور بارود کے استعمال کی خبریں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ’کم از کم فورس‘ کا استعمال کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے شمالی خرطوم میں مظاہروں کے دوران صرف ایک ہلاکت ریکارڈ کی ہے۔جمہوری حکومت کا وہ بلاک جو عمر البشیر کی حکومت کے خلاف مظاہروں کی قیادت کر رہا تھا اور جس نے 2019 میں اقتدار میں فوجی اشتراک کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس نے اتوار کو ہونے والے معاہدے کو مسترد کردیا۔آزادی و تبدیلی کی فورسز کے مرکزی دھڑے نے کہا کہ ’ہم اپنے واضح اور پہلے اعلان کردہ مؤقف کی توثیق کرتے ہیں کہ بغاوت کے لیے کوئی مذاکرات، کوئی شراکت داری، کوئی قانونی جواز نہیں ہے‘۔