سری نگر:غربت و افلاس سے تنگ آکر میں خود کشی کرکے اپنی زندگی ختم کرنے والی تھی کہ قومی دیہی روز گار مشن (این آر ایل ایم) کی اسکیم ’امید‘ نے میرے زندہ رہنے کی امید کوجاگزین کر دیا۔یہ باتیں جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ کے متری گام سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ شہزادہ اختر کی ہیں، جنہوں نیگھر کا چولھا جلانے کے لئے میوہ باغوں میں مزدوری کی اور اپنی محنت اور لگن کے باعث ا?ج وہ ایک کامیاب تاجرہ ہیں۔شہزادہ اختر نے یو این ا?ئی کے ساتھ تفصیلی گفتگو میں کہا کہ غریبی سے تنگ آکر میں خود کشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والی تھی لیکن قومی دیہی روز گار (این آر ایل ایم) کی اسکیم ’امید‘ نے میرے زندہ رہنے کی امید کو جاگزین کر دیا۔انہوں نے کہا: ’میں غریبی سے لڑنے کے لئے میوہ باغوں میں مزدوری کرتی تھیں اور موسم سرما، جب یہاں برف باری اور سردیوں کے باعث گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے، کے دوران سوزن کاری کرکے اپنے افراد خانہ کا پیٹ پالتی تھی‘۔ان کا کہنا تھا: ’ لیکن یہ محنت بھرا کام کرنے کے باوجود بھی میں اپنے والد کا قرضہ ادا کر نے سے قاصر تھی جو انہوں نے گھر چلانے کے لئے گولوں سے اٹھایا تھا‘۔شہزادہ کہتی ہیں کہ میری تقدیر اس دن بدل گئی جب میری ملاقات میری ایک سہیلی نیلوفر سے ہوئی جو این آر ایل ایم کے عہدیداروں کے ساتھ اندھرا پردیش گئی تھی۔انہوں نے کہا: ’سال2015 میں این آر ایل ایم کے عہدیداروں کی ایک ٹیم ہمارے گاؤں متری گام آئی اور مجھے ایک سیلف ہلپ گروپ بنانے کے لئے دس لڑکیوں پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دینے کو کہا اور مجھ سے کہا گیا کہ ’امید‘ اسکیم کے تحت رجسٹر ہونے کے لئے بینک میں ایک کھاتہ کھولنا ہے جس میں ہر ہفتے25 روپیے جمع کرنے ہیں‘۔ان کا کہنا تھا: ’پہلے میں بہت پریشان تھی کہ ہر ہفتے پچیس روپیوں کا انتظام کس طرح کر پاؤں گی تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری اور میوہ باغوں، لوگوں کے گھروں اور دوسری جگہوں پر کام کرکے میں نے ہر ہفتے بینک کھاتے میں پچیس روپیے جمع کرنے شروع کئے‘۔موصوفہ نے کہا کہ گروپ کے تمام ممبر بھی باقاعدگی کے ساتھ ہر ہفتے بینک کھاتے ہیں پچیس پچیس روپیے جمع کرتے رہے۔انہوں نے کہا: ’اس طرح ہم کھاتے میں تین ہزار روپیے جمع کرنے میں کامیاب ہوئے اور اسکیم کے قاعدے کے مطابق ہم نے اس رقم کو نکال کر کسی ایک ممبر کو دینے تھے‘۔ان کا کہنا تھا: ’ہم بہت خوش تھے کہ کم سے کم ہم نے بینک کھاتے میں پیسے جمع کرنے اور نکالنے کا کام سیکھا۔شہزادہ نے کہا کہ ہم نے یہ رقم ایک ممبر کو دی جس کو اپنے بچے کی سکول فیس جمع کرنا تھی۔انہوں نے کہا: ’میں بینک کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہی جس سے مجھے آہستہ آہستہ دوسری نوعیت کے لین دین سیکھنے کا موقع مل گیا‘۔ان کا کہنا تھا: ’اس دوران این آر ایل ایم کا پروجیکٹ رسورس پرسن ہمارے گاؤں میں آیا اور انہوں نے ہمارے بینک کاؤنٹ کا آڈٹ کیا اور ہمارے گروپ کو ’اے‘ گریڈ سے نواز کر ہمیں روالونگ فنڈ (آر ایف) کے تحت15 ہزار روپیے دیے جس کو ہم نے تین لڑکیوں میں بحصہ برابر منقسم کیا‘۔شہزادہ اختر نے کہا کہ ہمارے گروپ کی ایک ممبر نے سلائی کا کام سیکھا تو اس نے اپنے حصے کی رقم سے ایک میشن خریدی دوسری ممبر نے کچھ بکریاں خریدی‘۔انہوں نے کہا: ’تاہم میں پریشان تھی کہ کیا کروں کیونکہ میں کچھ لوگوں کی مقروض تھی جن سے میں نے گھر چلانے کے لئے وقت وقت پر قرضہ لیا تھا‘۔انہوں نے کہا: ’اس کے بعد این آر ایل ایم نے سی آئی ایف کے تحت ہمارے کھاتے میں 40 ہزار روپیے جمع کئے اور گروپ کے تمام ممبروں نے یہ رقم مجھے دی تاکہ میں ایک گائے خرید سکوں اور کاروبار شروع کر سکوں‘۔انہوں نے کہا: ’لیکن میں جانتی تھی کہ گائے کی دیکھ ریکھ کرنا اور اس کو پالنا پوسنا ایک مشکل کام ہے اس کے لئے کئی چیزوں کے علاوہ ایک گائے خانے کی بھی ضرورت ہے لہذا میں نے اس مسئلے پر اپنے والد کے ساتھ بات کی‘۔ان کا کہنا تھا: ’بالآخر میں نے ایک گائے خریدی اور گائے خانہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کو گرما کے دوران ترپال کے بنے ایک گائے خانے میں رکھا‘۔موصوفہ نے کہا کہ جس دن میں نے گائے خریدی اسی دن ہمیں امید پروگرام کے تحت دودھ جمع کرنے کے لئے ایک مشین فراہم کی گئی۔انہوں نے کہا: ’میں نے دودھ کا کاروبار شروع کیا اور میں باقاعدگی سے بینک قرضے کی قسطیں بھی ادا کرتی رہی اور اسی دوران این آر ایل ایم نے سی آئی ایف کی مبلغ پچیس ہزار کی دوسری قسط واگذار کی اور گروپ ممبروں نے وہ رقم بھی مجھے ہی دے دی جس سے میں نے اپنے کارو بار کو مزید وسعت دے دی‘۔انکا کہنا تھا: ’میں نے اپنے اس کاروبار کے بینک کھاتے کو این آر ایل ای ے بینک کھاتے سے منسلک کر دیا جس کی بنا پر مجھے دس لاکھ روپیے کا قرضہ دیا گیا‘۔انہوں نے کہا کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ میرا کاروبار بھی بڑھتا گیا اور میں اپنے یونٹ میں 22 گایوں کا ریوڑ جمع کرنے میں کامیاب ہوئی جن سے میں روزانہ 300 کلو دودھ حاصل کرتی ہوں۔شہزادہ نے کہا کہ سال 2017 میں مجھے اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ پلوامہ نے قصبے میں ایک دکان فراہم کی جہاں میرے دو بھائی دودھ، پنیر اور دہی بیچتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کئی لڑکیاں میرے ’ ڈیئری فارم‘میں کام کر رہی ہیں اور اس طرح اپنی روزی روٹی خود ہی کما رہی ہیں۔شہزادہ اختر نے کہا کہ جب ایک انسان میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو وہ کسی بھی مشکل سے مشکل تر رکاوٹ کو بھی پار کرکے اپنا روز گار حاصل کر سکتا ہے۔انہوں نے وادی کی دوسری لڑکیوں سے اپیل کی کہ وہ بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اپنے والدین پر بوجھ بننے کے بجائے خود کمائیں جس کے لئے یہاں وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے اور حکومت نے بھی اس کے لئے کئی اسکیمیں متعارف کی ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔یو این آئی