چین تائیوان کو اس سے کہیں زیادہ دیکھ رہا ہے جتنا روس ایک طویل عرصے سے یوکرین پر لگا ہوا ہے۔ ایسے میں چین نے یوکرین پر روسی حملے کو سبق کے طور پر لیا ہے۔ یوکرین کی طرح دنیا بھر میں تائیوان پر چین کے حملے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن فی الوقت یہ امکان بعید نظر نہیں آتا۔ تائیوان کے حکام بھی ‘آج یوکرین اور کل تائیوان کی باری کے بیانات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چین ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ تاہم چین کے ریکارڈ کو دیکھ کر یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔یونیورسٹی آف ٹوکیو کے گریجویٹ اسکول آف لاء اینڈ پولیٹکس کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں پروفیسر اکیو تاکاہارا نے کہا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ یوکرین میں جنگ کی چینی طرف سے کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر چین یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس جنگ میں ہتھیار کیسے استعمال ہوئے اور وہ کتنے کامیاب رہے۔ روسی افواج کامیاب کیوں نہیں ہو رہی ہیں اور یوکرین کی افواج دفاع کیسے کر سکتی ہیں؟ چینی فوج ان تمام اطراف پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ چین روس پر ان اقتصادی پابندیوں کا بھی جائزہ لے رہا ہے جو مغربی ممالک نے لگائی ہیں۔پروفیسر تکاہارا نے کہا، ‘میں سمجھتا ہوں کہ تائیوان کے حوالے سے چین کی پالیسی یہ ہوگی کہ طاقت کا زیادہ استعمال نہ کیا جائے۔ اس کے بجائے وہ شُن زو کی آرٹ آف وار کی پالیسی کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔ یہ واضح ہے کہ تائیوان کے خلاف چین کی یہ لڑائی جاری رہے گی اور وہ سیدھی جنگ میں جانے سے گریز کرے گا۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین اور تائیوان میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں کے سامنے خطرات بھی ایک جیسے ہیں۔ ایک طرف یوکرین کو روس کے خطرے کا سامنا ہے جو اسے اپنا حصہ سمجھتا رہا ہے۔ اسی طرح چین تائیوان کو ثقافتی طور پر اپنا حصہ بنا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین پر حملے کے ساتھ ہی دنیا نے تائیوان کے مستقبل پر تشویش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔تائیوان کے صدر سائی ینگ وین نے جنوری میں کہا تھا کہ ان کا ملک طویل عرصے سے چین کی طرف سے فوجی خطرات کا شکار ہے۔ تو ہم یوکرین کی صورت حال کو سمجھ سکتے ہیں۔ تاہم، تائیوان کی خودمختاری یوکرین کی طرح واضح نہیں ہے۔ اسے اقوام متحدہ نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ تاہم امریکہ کی جانب سے تائیوان کو مسلسل امداد دی جاتی رہی ہے۔