لندن//برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے جمعہ کو کہا ہے کہ طالبان کا افغانستان پر قبضہ شدت پسندوں کو حوصلہ افزائی دیتا ہے اور یہ مغرب کے خلاف القاعدہ کے بڑے حملے شروع کرنے کی سازشوں کی بحالی کا باعث بن سکتا ہے۔’ایم آئی 5‘ کے ڈائریکٹرجنرل کین میک کولم نے کہا کہ نیٹو افواج کے انخلا اور بین الاقوامی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خاتمے کی وجہ سے برطانیہ کو “زیادہ خطرات” کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔میک کولم نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا کہ دہشت گردی کے خطرات راتوں رات ٹارگٹڈ پلاننگ، ٹریننگ کیمپوں یا انفراسٹرکچر کے معنی میں تبدیل نہیں ہوتے۔ البتہ افغانستان میں پیدا ہونیوالے حالات گیارہ ستمبر جیسے واقعات کا موجب بنتے ہیں۔اس طرح کے حالات کسی بھی دوسرے علاقے میں انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتے ہیں۔برطانیہ نے گذشتہ دو دہائیوں میں مسلمان شدت پسندوں کے متعدد حملوں کا سامنا کیا ہے۔ سب سے مہلک حملہ7 جولائی 2005 کو کیا گیا تھا جب 4 خودکش حملہ آوروں نے لندن کے زیر زمین ٹرینوں اور ایک بس میں 52 مسافروں کو ہلاک کیا۔چاقو اور گاڑیوں کے حملے بڑی حد تک ایسے افراد کا ہاتھ رہا جو داعش جیسے عسکریت پسندوں سے متاثر تھے لیکن ان کی ہدایت کے تحت نہیں۔میک کالم نے کہا کہ برطانوی حکام نے گذشتہ چار سال میں دہشت گردوں اور انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندوں کے 31 حملوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا مشکل تھا ہے کہ گیارہ ستمبر کے امریکا پر حملوں کے بعد برطانیہ زیادہ محفوظ تھا یا کم محفوظ۔دریںاثنا جہاں انہوں نے افغانستان کی حکومت ساز ی کے بارے میں بات کی اس کے ساتھ ہی انہو ںنے یہ خفیہ دستاویز بھی حاصل کرنے کے بارے میں بات کی ۔ ان دستاویز میں کچھ ہارڈسک اوردیگر جیٹل جانکاریاں ہیں جس سے خفیہ ایجنسی اپنی جانکاری کیلئے استعمال کرے گی جو سیکورٹی کے لئے بڑا خطرے بن سکتا ہے یہ سارا ڈاٹا دفتر رمیں ہی پڑا تھا کیونکہ اشرف غنی حکومت کو اتنی جلد گرنے کا امکان نہیں تھا جب امریکہ نے افغانستان سے انخلاء کا اعلان کیا تو اس کے بعد محکمے دفاع اور قومی سلامتی سے تعلق رکھنے والے اہلکار کام پر نہیں آئے تھے اور اس وجہ سے ان دستاویزوں کو تباہ نہیں کیا جا سکا ۔ دستاویزوں کے بارے میں افغانستان میں پاکستان کے سفیر نے منصوراحمد نے اپنی خفیہ ایجنسی کو الرٹ کیا اور فوراً اس پر کارروائی کی گئی دوسری طرف ا فغانستان اور پاکستان نے دوطرفہ کاروبارپاکستانی کرنسی میں کرنے کا فیصلہ کیاگیا جس سے پاکستان کی بگڑی ہوئی معیشت کو کسی حد تک سنورنے کا موقع ملے گا ۔ اس سے پہلے دونوں ملکو ںکا کاروبار امریکی ڈالر میں ہوتا تھا ۔