روس نے افغانستان کے حکمران طالبان سے کہا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی حکومت کو تسلیم کرے تو انہیں انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کی توقعات پر پورا اترنا ہوگا۔خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے لیے روس کے نمائندے ضمیر کابولوف نے ماسکو میں طالبان سمیت دیگر ممالک کے افغانستان کے حوالے سے مذاکرات کے دوران کہا کہ انتہا پسندوں کو اس وقت تسلیم کیا جائے گا جب وہ انسانی حقوق اور جامع حکومت کے حوالے سے عالمی برادری کی توقعات پوری کرنا شروع کریں گے۔روسی نمائندے نے کہا کہ طالبان نے ماسکو میں مذاکرات کے لیے اپنا نمائندہ بھیجا ہے جہاں چین اور پاکستان بھی شامل ہیں اور یقین دلایا ہے کہ وہ حقوق اور انتظامی مسائل پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے نمائندے نے بتایا کہ وہ انتظامی امور اور انسانی حقوق کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن ہم دیکھیں گے۔ضمیر کابولوف نے عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنی جانب داری کو ترک کریں اور افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے متحد ہوجائیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی نئی حکومت کو ہر کوئی نہیں چاہتا لیکن حکومت کو سزا سے ہم پورے عوام کو سزا دیں گے۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں شامل تمام 10 ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا جائے گا وہ افغانستان کے لیے فنڈز جمع کرنے کی خاطر ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کرے۔روسی نمائندے کے بیان کے بعد طالبان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔اس سے قبل نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی نے کہا تھا کہ افغانستان کی نئی قیادت پہلے ہی یکجا ہے۔طالبان کے سینئر رہنما نے بتایا تھا کہ ہمیں بیرونی عسکری امداد کی ضرورت نہیں ہے، ہمین افغانستان میں امن کے لیے تعاون درکار ہے، ہمیں تعمیر نو اور بحالی کی ضرورت ہے۔روس افغانستان کے حوالے سے مذاکرات میں طالبان سمیت 10 ممالک کی میزبانی کر رہا ہے اور اس نے زور دیا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائی کی جائے جو افغانستان میں حالات خراب کرنے میں ملوث ہے۔ماسکو میں جاری مذاکرات میں طالبان کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان سمیت 10 ممالک شریک ہیں، افغانستان میں اگست میں طالبان کے قبضے کے بعد مذکورہ دونوں ممالک کو بین الاقوامی سطح پر افغانستان کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں اہمیت دی جاتی ہے۔اس سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں داعش کے جنگجو جمع ہو رہے ہیں جن کا مقصد سابق سوویت یونین کی مرکزی ریاست روس میں کشیدگی پھیلانا ہے۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف اس حوالے سے اجلاس میں اپنا مؤقف دیں گے۔طالبان وفد کی قیادت نائب وزیراعظم عبدالسلام حنفی کر رہے ہیں، جو طالبان حکومت کے اعلیٰ قیادت میں شامل ہوتے ہیں اور انہوں نے اس سے قبل گزشتہ ہفتے یورپی یونین اور امریکا کے ساتھ بھی مذاکرات کیے تھے۔بعد ازاں انقرہ میں ترک حکام کے ساتھ بھی طالبان کے مذاکرات ہوئے تھے۔یورپی یونین نے مذاکرات کے بعد افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے کے لیے 1.2 ارب ڈالر امداد کا وعدہ کیا تھا۔روس کی وزارت خارجہ نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ ماسکو مذاکرات کا ایک مقصد انسانی بحران سے بچنے کے لیے عالمی برادری کی کوششوں کو مضبوط بنانا بھی ہے۔روس نے کہا تھا کہ جامع حکومت کی تشکیل ایجنڈے میں شامل ہوگی اور مذاکرات کے بعد فریقین کی جانب سے مشترکہ اعلامیے جاری ہونے کی اُمید ہے۔ماسکو میں اس سے قبل بھی کئی مرتبہ افغانستان سے متعلق مذاکرات ہوئے ہیں جہاں طالبان نے شرکت کی تھی۔روس، خاص طور پر وسطی ایشیا کی سابق سوویت ریاستوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کے امکانات سے پریشان ہے، اس خطے کو ماسکو دفاعی بفر کے طور پر دیکھتا ہے۔روسی حکام کی مذاکرات کے حوالے سے توقعات میں تبدیلی آگئی ہے جبکہ امریکا نے کہا تھا کہ وہ اس مرحلے پر گفتگو کا حصہ نہیں ہوگا لیکن مستقبل میں شامل ہونے کا منصوبہ رکھتا ہے۔صدر پیوٹن کے نمائندہ نمائندے ضمیر کابولوف نے افغانستان کے حوالے سے کہا کہ گزشتہ ہفتے انہیں کسی اہم پیش رفت کی توقع نہیں تھی۔کریملن کے ترجمان دیمیرتی پیسکوف نے کہا تھا کہ ان مذاکرات کے ذریعے ‘وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مستقبل میں افغانستان میں کیا ہوگا’۔