سرینگر:وادی کشمیر میں شالبافی سے منسلک ہزاروں افراد کا مستقبل مخدوش بن گیا ہے اوران کا اہل و عیال فاقہ کشی پر مجبور ہوگیا ہے ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق وادی کشمیر میں جہاں کی شالبافی دنیا بھر میں مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ پسند کی جاتی تھی اب تواریخ بنتی جارہی ہے اور اس صنعت سے وابستہ افراد اس کو خیر باد کہنے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ جبکہ اس حوالے سے محکمہ ہینڈی کرافٹس کی جانب سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے ہیں جس سے شالبافی میں لوگ دلچسپی دکھاتے ۔ ایک تو شالبافی کیلئے درکار اُون اب وادی میں دسیتاب نہیں ہوتا اور اس کیلئے لداخ اور دوسری جگہوں سے اُون حاصل کیا جاتا تھا تاہم شالبافی کیلئے درکار اُون اب لداخ سے آنا بند ہوا ہے جس کے نتیجے میں اس کی بنائی پر کافی خراب اثرا پڑا ہے ۔ جبکہ بیرون ریاست اور بیرون ممالک میں بھی شالبافی کا کوئی اچھا بازار نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے کارروبار پر منفی اثر پڑا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف ہنر مند اور کاری گر دن بھر محنت کرکے دو وقت کی روٹی کماتے تھے تاہم اب ان کو بھی دو وقت کا کھانا ملنا دشوار بن گیا ہے۔وادی کے کے بیشتر دیہات اور شہر خاص کے لوگ شالبافی پر گزارہ کرتے تھے لیکن شالبافی کیلئے درکار اون اب انہیں آسانی کے ساتھ دسیتاب نہیں ہوتا ۔ادھر شہر خاص کے علاوہ ضلع پلوامہ کے اندر ، گڈورہ، حسن وانی اور پاری گام کے علاوہ درجنوں دیہات کے لوگ شالبافی پر گزارا کرتے تھے اور اب ان کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے ۔ اس ہنر سے منسلک افراد نے بتایا ہے کہ شالبافی کیلئے درکار اون لداخ سے آتا ہے کیوں کہ وادی میں اس یہ اون دسیتاب نہیں ہے اور جو محکمہ جات اس سے منسلک ہیں وہ بھی شالبافوں کو یہ اون فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے رہے ہیں جس کے نتیجے میں شالبافی کا یہ ہنر اب برائے نام رہ گیا ہے جو لوگ اس کے ساتھ وابستہ تھے ان کا اہل وعیال مالی مشکلات سے دوچار ہیں اور فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ ہنر مندوں کے مطابق پہلے لداخ سے بڑی مقدار مین اون وادی لایا جاتا تھا لیکن اب کم اور قلیل مقدار میں اون یہاں آتا ہے ۔ انہوںنے کہا کہ اس ہنر کو اگر زندہ رکھنا ہے تو کشمیر میں ہی اون کی پیداوار کیلئے متعلقہ محکمہ کو اقدامات اُٹھانے ہونگے ۔ادھر شہر سرینگر کے مختلف علاقوں کے علاوہ کنزر، ٹنگمرگ، اور بڈگام کے کانہامہ اور دیگر گائوں کے علاوہ بانڈی پورہ، سوپور، اور اننت ناگ کے مختلف علاقوں میں اس صنعت سے کافی لوگ جڑے تھے تاہم اس صنعت میں ضرورت کے مطابق کمائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اب اس سے کنارہ کشی اختیار کررہے ہیں تاہم جو لوگ آج بھی اس صنعت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سرکار کو اس حوالے سے اقدامات اُٹھانے چاہئے نہیں تو وہ دن دور نہیں جب وادی میں شالبافی ایک تاریخی صنعت بن کے رہے گی ۔ اس ضمن میں انہوںنے گورنر انتظامیہ اور متعلقہ اعلی افسران سے اپیل کی ہے کہ وہ شالبافوں کو مذکورہ اون فراہم کرنے کے حوالے سے اقدامات اُٹھائیں تاکہ ان کی روزی روٹی چل سکے ۔