استنبول: عالم اسلام کی معروف شخصیت اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے پیر اوستاؤسمان اوغلو یا شیخ محمود آفندی کا انفیکشن کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے کے دو ہفتے بعد انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر تقریباً 93برس تھی۔ یہ اطلاع وکی پیڈیا پر دی گئی ہے۔اوستاؤسمان اوغلو جن کو عام طور پر محمود آفندی کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کے شاگردوں میں حضرت لری آفندی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ایک ترک صوفی شیخ اور نقشبندی خالدیہ سلسلے کے بااثر جامعہ اسماعیلہ کے رہنما تھے۔محمود آفندی ضلع اوف کے گاؤں مکو(اب تیوسانلی) میں 1929میں ایک گاؤں کے امام کے یہاں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 10 سال کی عمر میں اپنے والد کے زیر سایہ حافظ بن گئے اور 16 سال کی عمر میں اپنا اجازہ حاصل کرتے ہوئے مدرسہ کی تعلیم جاری رکھی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی چچا زاد بہن سے شادی کی اور امامت کا کام شروع کیا۔1952ء میں، محمود آفندی سے احسکاعلیٰ حیدر آفندی (گربزلر) سے ملاقات ہوئی، جو ایک نقشبندی شیخ تھے وہ ان کے مرشد بن گئے۔ علی حیدر آفندی نے انہیں 1954ء میں اسماعیلہ مسجد کا امام مقرر کیا۔ جہاں وہ سال 1996ء تک امام رہے، 1960ء میں علی حیدر آفندی کے انتقال کے بعد محمود آفندی کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ آیا اور وہ اس راستے (طریقہ) کے رہنما بن گئے۔ 1996ء میں، وہ اسماعیلہ مسجد کے امام کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔محمود آفندی نے آنے والے سالوں میں، خاص طور پر 1997ء کے میمورنڈم کے بعد، تنہائی میں رہنے کی کوشش کی، لیکن سلسلے میں اندرونی جھگڑوں کے ایک سلسلے کی وجہ سے ان کے تعلقات عوامی سطح پر آگئے۔ ان کے داماد حضر علی مراتو اوغلو کو 1998ء میں قتل کر دیا گیا تھا اور 2006ء میں ایک ریٹائرڈ امام بیرم علی اوزترک کو مسجد میں قتل کر دیا گیا تھا اور جس شخص نے انہیں چاقو مار کر قتل کیا تھا اسے جماعت نے بلوے میں قتل کر دیا تھا۔رجب طیب ایردوان محمود آفندی کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ایردوان نے 2014ء میں صدارتی انتخابات سے ایک رات قبل محمود آفندی (استاؤسمان اوغلو) کی خانقاہ کا انتہائی مشہور دورہ کیا۔واضح رہے کہ ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علمائے نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دھاتی گاؤں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دینا شروع کیا تھا اور جب وہاں کے لوگ فوج کو آتے دیکھتے تو فورن بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے یوں محسوس ہوتا تھا یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ان طالبعلموں میں یہ شیخ محمود آفندی نقشبندی بھی شامل تھا اسی طرح دینی تعلیم حاصل کی۔پھر وہاں سے شہر کا رخ کیا وہاں ایک قدیم مسجد تھی محمود آفندی نقشبندی جب وہاں رہنے لگے اورچالیس سال تک درس دیتے رہے۔اس کے علاوہ ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا وہ وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتاب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی تو شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے گردان پڑھائے حج اور نماز کے مسئلے بھی ہاتھوں کے اشاروں پر سمجھائے اللہ تعالی نے اس کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھا تھاشیخ محمود آفندی علمائے دیوبند سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ شیخ آفندی نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو چودہویں صدی کا مجدد کہا۔ جنہوں نے اٹھارہ جلدوں میں ترکش تفسیر ‘روح الفرقان لکھی اور اسکی چوتھی جلد کے صفحہ 724 پر مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو شیخ المشائخ اور مولانا ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کو امام محدّث اور علامہ لکھا۔یہی وجہ ہے کہ 2013 میں شیخ الاسلام شیخ محمود آفندی کو ‘امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ اوارڈ سے بھی نوازا۔