روس نے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے معاہدے پر اقوام متحدہ کی چار ہفتے جاری رہنے والی کانفرنس کے بعد مشترکہ اعلامیے کو روک دیا، ماسکو نے اس کے متن کو سیاسی پہلو قرار دے کر مذمت کی۔غیر ملکی خبر رساں کے مطابق نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) یعنی جوہری عدم پھیلاؤ پر دستخط کرنے والے 191 ممالک ہر 5 سال بعد اس کا جائزہ لیتے ہیں، اس معاہدے کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنا، اسلحے کی مکمل تخفیف اور جوہری توانائی کے پرامن استعمال میں تعاون کو فروغ دینا ہے۔نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکواٹر میں جمع ہونے والے ممالک نے یکم اگست سے مذاکرات میں حصہ لیا جس میں آخری سیشن بھی شامل ہے جو جمعہ کو کئی گھنٹوں کے لیے ملتوی کیا گیا تھا۔ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے کانفرنس کے صدر گوسٹو زولاوینن نے آخر میں کہا کہ روس کی جانب سے متن کا مسئلہ اٹھانے کی وجہ سے ہم معاہدہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
روس کے نمائندے ایگور وشنویتسکی نے کہا کہ مسودے کا حتمی متن 30 صفحات سے زیادہ طویل اور غیرمتوازن ہے، ہمارے وفد کو کچھ پیراگراف پر اہم اعتراض ہے کہ یہ سیاسی نوعیت کے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ صرف روس نے متن کے حوالے سے مسئلہ نہیں اٹھایا۔رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ روس خاص طور پر زاپوریزہیا میں یوکرین کے جوہری پاور پلانٹ سے متعلق پیراگراف کی مخالفت کر رہا تھا جس پر روسی فوج کا قبضہ ہے۔مسودے کے تازہ متن میں یوکرین کے پاور پلانٹس بشمول زاپوریزہیا کے ارد گرد فوجی سرگرمیوں پر ‘شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ یوکرین کے ایسی سائٹس کے کنٹرول سے محروم ہونے اور سیفٹی کے حوالے سے منفی اثرات مرتب ہونے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔غیرجانبدار اور غیر جوہری آسٹریا نے مذاکرات میں صرف روس نہیں بلکہ بڑی طاقتوں کے رویے کی بھی مذمت کی تھی۔
ویانا کی حکومت نے جاری بیان میں کہا کہ 191 دستخط کرنے والی ریاستوں میں سے تین چوتھائی ممالک جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے قابل اعتبار پیش رفت کی حمایت کرتے ہیں، بنیادی طور پر جوہری قوتیں اور سب سے بڑھ کر روس نے مزاحمت کی۔رپورٹ کے مطابق یہ بات نوٹ کی گئی کہ معاہدے کے برخلاف برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکا جوہری ہتھیاروں کو جدید یا اس میں اضافہ کررہے ہیں۔پہلے والے معاہدے پر عمل نہ کرنے والی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے نیویارک میں مذاکرات کے دوران کوئی قابل قبول رضامندی ظاہر نہیں کی گئی، دستخط کرنے والے ممالک نے کانفرنس کے دوران دیگر متنازع موضوعات پر تبادلہ خیال کیا، جس میں ایران کے نیوکلیئر پروگرام اور شمالی کوریا کے جوہری تجربات بھی شامل ہیں۔2015 میں ہونے والی آخری جائزہ کانفرنس میں بھی فریقین اہم مسائل پر کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کانفرنس کے افتتاح کے موقع پرخبردار کیا تھا کہ دنیا کو ایسے جوہری خطرات کا سامنا ہے جو سرد جنگ کے عروج کے بعد سے نہیں دیکھا گیا، انسانیت آج مکمل جوہری تباہی سے صرف ایک غلط فہمی کی دوری پر ہے۔