بشیر احمد ڈار
سترویں صدی کے کشمیر میں جو عظیم المرتبت اور جلیل القدر صوفیاۓ کرام نے شہرت پاٸی ان میں خواجہ حبیب اللہ گانی رحمتہ اللہ علیہ کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے انکا پورا نام خواجہ حبیب اللہ گانی رحمتہ اللہ علیہ ہے اور عطار کے نام سے معروف ہیں انکے والد محترم خواجہ حبیب اللہ گانی ہیں۔ جنکا قبیلہ روساٸی کشمیر یعنی امیر ترین اصحاب میں شامل تھا۔انکے والد نے انکی کم سنی میں وفات پاٸی اور وہ بچپن میں ہی یتیم ہوگٸے ۔وہ نہایت حسین و جمیل تھے ۔جوانی میں خدا پرستی کا ذوق پیدا ہوا ۔ایک دن حضرت خواجہ یعقوب دار ولی رحمتہ اللہ علیہ جو کہ حضرت میر سید شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ کے خلفا ٕ میں سے تھےکو ان پر نظر پڑی ۔وہ بہت متاثر ہوٸے اور ان کو اپنا روحانی فرزند بنالیا۔ظاہری شکل و صورت کے علاوہ ان میں باطنی استعداد کا مادہ بھی تھا۔خواجہ اعظم دید مری واقعات کشمیر میں رقم طراز ہیں کہ کچھ عرصے کے لیے لاہور گئے جہاں حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کی جناب سے سلسلہ علیہ قادریہ کی سند حاصل کی۔ حضرت مرزا کامل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت غوث الاعظم شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ خواب میں حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ کو جعلوہ گرہوٸے اور انہیں اپنی روحانی امانت کے بارے میں یہ ارشاد کیا کہ اس سے کشمیر میں میرے روحانی فرزند خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد کرنا۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت میاں میر رحمتہ اللہ علیہ نے کشف کے ذریعے خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ کو اس کی اطلاع کی اور یہ بھی کہا کہ اس مقصد کےلیے اگر آپ کہیں تو میں کشمیر کا سفر کروں گا یا آپ ہی یہاں تشریف لاٸیں۔خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی کہ وہ ہی اس کےلیے لاہور آٸیں گے ۔ اس طرح خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ قادریہ سے سرفراز ہوٸے۔خواجہ اعظم دید مری یہ بھی لکھتے ہیں کہ انکی والدہ کی جدہ(نانی یا دادی) کو آنجنباب یعنی خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ نکاح اور شرف ازدواج کی سعادت میسر آئی۔ وہ ان کے کمالات عجیبہ سے متعلق نادر حکایات بیان کیا کرتی تھیں۔ ان میں سے کچھ کا ذکر کتاب ثمرات میں مرقوم ہے۔ وہ عصمت ماب خاتون بھی زندگی کے آخری دنوں تک عبادات و اذکار کی پوری طرح پابند رہتی تھیں۔جیسا کہ اوپر لکھا گیا کہ حضرت عطار ؒ حضرت خواجہ یعقوب دار ولیؒ کی خدمت میں شامل ہوئے یعنی ان سے روحانی تربیت کےلیے حاضر رہتے تھے۔ جب حضرت خواجہ یعقوب ؒ کا وصال ہوا تو اسی دوران جنا ب حضرت میر سید شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ حرمین کے سفر سے واپس آ گئے۔ انہوں نے حضرت خواجہ یعقوب دار ولی رحمتہ اللہ علیہ سے روحانی طور تفحص (استفسار)کیا کہ ہماری امانت کسی شاگرد کے سپرد کی ہے یا اپنے ہمراہ ہی لےلی ہے؟ اُس نے جواباً عرض کی کہ ایک حبیب اللہ نامی لڑکے کے ساتھ اس معاملے میں عشقبازی کررہا تھا۔یا یوں کہیے کہ راہ حق کا سفر طے کرنے کےلیےجو گرانقدر نسخہ آپؒ نے مجھے عنایت کیا تھا وہ میں نے خواجہ حبیب اللہ گانی رحمتہ اللہ علیہ کو عطا کیا ہے۔ خواجہ حبیب رحمتہ اللہ علیہ کو بڑے التفات سے طلب کیا اور بذات خواد ان کی تربیت کی۔لطاٸف الحقانی میں درج ہے کہ خواجہ حبیب اللہ عطار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان ہی دنوں حضرت شاہ قاسم رحمتہ اللہ علیہ نے کسی کو مجھے بلانے کےلیےبھیجا۔جب میں ان کی خدمت سے مشرف ہوا تو حضرت شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے حاضرین سے فرمایا کہ سبحان الله ! جناب حضور اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں اس جوان کو (روحانی حالت میں) میرے حوالے کیا ہے اور ان کے متعلق یہ فرمایا کہ یہ کامل استعداد رکھتا ہے ۔ پھر مجھ سے اپنے پیر یعنی خواجہ یعقوب دار ولی رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی احوال بیان کرنے کا حکم فرمایا ۔میں نے عرض کیا کہ جو کچھ روحانی مقامات کی کفیت میں نے گزرے ہوٸے زمانے کے بزرگوں کے بارے میں سنی ہے ان خصوصيات کو ان میں پایا۔ خواجہ حبیب اللہ عطار رحمتہ اللہ علیہ اپنی اس پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اس مجلس میں ایک شخص انار سے دانے نکالتا تھااور دانے نکالنے میں آداب یا صفاٸی ستھراٸی کا خیال اچھی طرح نہیں رکھ پاتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے ناگوار گزرا۔ حضرت شاہ قاسم رحمتہ اللہ علیہ کو قیافہ سے معلوم ہوا ۔انھوں نے اس شخص کی طرف اشارہ اور انہوں نے انار میرے ہاتھ میں دیا۔ میں نے انتہائی کوشش کی کہ میرا ہاتھ کسی دانے تک نہ پہنچے یعنی صفاٸی کا ایسا احتياط کیا کہ ہاتھ دانوں کو لگاٸے بغیر جھلی سے دانے الگ کیے۔ ایسا طرزعمل دیکھ کر حضرت شاہ قاسم رحمتہ اللہ علیہ نے میری سراہنا کی اور فرمایا کہ تو اس خدمت اور اس (روحانی) خاندان کے لاٸق ہے۔حسن سیرت اور حسن صورت کی بنا پر انہیں حضرت شاہ قاسم رحمتہ اللہ علیہ کی جناب میں پوری پوری قبولیت میسر آئی ۔اُسی وقت اپنی خاص مہر کے ساتھ خطِ ارشاد عطا کرنے کے بعد مجھےگوناگوں عنایتوں سے نوازا۔مورخ پیر حسن شاہ کھویہامی تاریخ کشمیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت میرسید شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک دن یہ فرمایا کہ میں نے اپنے سرمایہ کے تین حصے کردٸیے ہیں ۔دو حصے خواجہ حبیب کو دٸیے اور ایک حصہ اپنے فرزند شاہ قطب الدین کےلیے رکھا۔ خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ پھر(اسی پہلی مجلس میں غالباً) مجھ سے حضرت شاہ حقانی رحمتہ اللہ علیہ نے استفسار کیا کہ تیرا پیر(خواجہ یعقوب دار ولی رحمتہ اللہ علیہ ) کیسے اور کس طریقہ سے میرا اعتقاد رکھتاتھا۔میں نے عرض کی کہ ان کاجناب والا کے بارے میں اعتقاد کے متعلق جیسا کہنے کا معیار ہونا چاہیے میں عرض کرنے سے قاصر یا معذور ہوں یا یوں کہیے کہ میں وہ پیش کرنے سے رطب اللسان ہوں۔لیکن ایک قصہ جو میرے روبرو واقع ہوا ہے ہو یوں ہے کہ ایک دن انہوں نے ایک شخص سے پوچها کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے اسنے جواب میں یہ کہا کہ وہ علاوالدین پورہ کے محلے میں ملا قاسم رحمتہ اللہ علیہ کے ہمسایوں مں سے ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کونسا ملا قاسم رحمتہ اللہ علیہ؟ اس نے وضاحت کی وہ جو درویش ملا قاسم رحمتہ اللہ علیہ ہے یہ کہنا تھا کہ خواجہ یعقوب دار رحمتہ اللہ علیہ نے اس کی جانب قہر انگیز نظروں سے دیکھا۔اتفاقاً وہ شخص بے اختیار کنکریوں کی مانند زمین سے اوپرہوا میں اٹھتا یہاں تک کہ وہ گھر کی چھت(جو شاید یک منزلہ جھونپڑی کی تھی)سے ٹکراجاتا اور پھر گرتاتھا۔میں نے عرض کی کہ یہ مررہا ہے انہوں نے فرمایا کہ مگر میں نہیں مرا۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ شخص فوت ہوگیا۔ خواجہ حبیب عطار رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مجھے اپنی خدمت میں رہنے کی اجازت دی اور خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ حضرت شاہ حقانی رحمتہ اللہ علیہ کے مقبولان خاص میں شمار ہوئے۔ جب تک میں حضرت یعقوب دار ولی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں تھا کوٸی ذکر و اذکار میں میں مشغول نہیں ہوتا تھا تمام اذکار و مراقبے میں نے حضرت شاہ رحمتہ اللہ علیہ سے تلقین پاٸے۔لہذا حضرت شاہ قاسم رحمتہ اللہ علیہ خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ کو "ذو نسبتین "یعنی دو نسبتوں والا لکھتے ہیں اور حضرت یعقوب دارؒ کو خرقہ والا اشارةً کہا ہے۔ کمالات طریقت شاہ قاسم حقانی رحمتہ اللہ علیہ سے بہرہ ور ہوئے۔ حضرت کے وصال کے بعد کمال استقامت سے لوازم طریقہ پر قائم رہے اور یوں مرتبہ ارشاد حاصل کیا۔ایک روز خواجہ مسعود پانپوری المعروف شوگہ بابا پانپوری رحمتہ اللہ علیہ حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور یہ کہا کہ حضرت شاہ رحمتہ اللہ علیہ صاحب کمال تھے لیکن آپ کو ان کی صحبت بہت کم عرصے کےلیے نصیب ہوٸی۔حضرت خواجہ نے فرمایا کہ تو نہیں جانتا ہے کہ حضرت شاہ رحمتہ اللہ علیہ دریاٸے بیکران کی مانند تھےان کے سامنے زیادہ صحبت کی ضرورت نہ تھی۔ حضرت خواجہؒ نے فرمایاکہ حضرت شاہؒ کے وصال کے بعد میں کوہ بانہال میں گوشہ نشین اور معتکف ہوا۔ایک دن جناب حضرت مقدس نبوی ﷺ مجھے جلوہ گر ہوٸے انہوں نے مجھ سے فرمایا بیت
"ہر کہ افتاد قبول تو قبول افتادم ” (غالباً یہ حضرت شاہ قاسمؒ سے خطاب ہے )جس پر تم مہربان ہو میں بھی اس پر مہربان ہوں گا۔ خواجہ عطارؒ اوراد فتحیہ پڑھنے کے دوران جب درود و سلام کے اس فقرے پر پہنچے ” الصلواة و السلام علیک یا شفیع المذنبین ﷺ” تو جناب حضرت مقدس نبوی ﷺ تشریف فرما ہوۓ ۔انہوں نے اپنی زبان دُرفشان سے یہ فرمایا کہ یہ کلمہ مجھے تمہاری زبان سے سننا بہت اچھا لگا۔انہوں نے فرمایا کہ اس کلمہ کو تین بار دہرایا کرو اسکے بعد خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ اس کلمہ کو تین باردہراتے تھے ۔ اسی بنا پر اس کلمہ کو ہر جگہ ہر کوٸی شخص تین بار دہراتا ہے حالانکہ اوراد فتحیہ میں حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بارہ پڑھنے کو ہی مذکور فرمایا ہے۔
مصطفی از سلام او خوشنود
پس بگفتش بخوان و کن تکرار
بہت سے بیمار لوگ حضرت خواجہ حبیب اللہ عطار رحمتہ اللہ علیہ کے پاس شفا کی دعا کرانےاور علاج کےلیے آتے تھے شعبہ طب میں ید طولیٰ رکھتے تھےوہ ان مریضوں کو اُلٹی یعنی مخالف چیزوں سے علاج کرتے تھےاور وہ اس علاج سے شفا پاتے تھے۔حضرت مرزا اکمل الدین بیگ خان بدخشی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان بیماروں کی شفا پانے کی اتنی طویل تفصیل ہے کہ اس کےلیے ایک الگ کتاب درکار ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن خواجہ عطار رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک مریض آیا تو اس نے عرض کی ،حضرت میرے نبض کا ملاحظہ کیجیے۔حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ نے قہر سے فرمایا کیا میں طبیب ہوں؟ انہوں نے اپنے خادموں سے کہا کہ اس مریض کو میرے سامنے سے اٹھاو۔ خادم نے حکم کی تعمیل میں اس مریض کو وہاں سے اٹھالیا۔ مجھ(مرزا اکملؒ)سے فرمایا کہ بیمار کی خبر لاو کہ وہ کس محلے کا ہے۔ میں اس کے پیچھے چلا گیا اور میں نے آدھا راستہ طے کیا تو میں نے دیکھا کہ وہ مریض راستہ میں گرپڑا اور فوت ہوگیا۔واپس آکر میں نے حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے اُس کی پیشانی سے ملک الموت کے اثرات ریکھے تھے تو اندیشہ ہوا کہ کہیں ہیاں پر ہی اس کی موت واقع نہ ہو۔
ایک دن ایک شخص حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا اور ان سے پوچھا کہ آیا اخوند ملّا شاہ بزرگ ہیں یااخوند ملّا طبیب؟ صورتحال یہ تھی کہ اُس وقت یہ دونوں شخص اس دنیا سے چلے گٸے تھے۔یہ سن کر خواجہ رحمتہ اللہ علیہ سخت ناخوش ہوٸے اور انہوں نے سخت لہجے میں فرمایا کہ میں کیا جانتا ہوں ، اُن ہی یعنی اخوند ملّا شاہ اور اخوند ملّا طبیب سے پوچھیے ۔ جب وہ شخص گھر پہنچا تو جان بحق ہوا
آں کہ جاں بخشد اگر بکُشدرواست(جو کہ جان بخشنے کا حق رکھتا ہے اگر وہ مارے تو روا ہے)
شیخ اکمل الدین ؒ مزید لکھتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں بیٹھا تھا اور میں کتاب زبدة الحقاٸیق یعنی تمہیدات عین القضاة ہمدانی کا مطالعہ کررہا تھا۔ شیطان کا ذکر چل رہا تھا۔اچانک سخت زلزلہ ہوا۔میں نے سمجھا کہ مکان گرجانے کا اندیشہ ہے۔کچھ وقت کے بعد ایک لمبے قد کا سیاہ رنگ آدمی دروازے سے اندر آیا۔اس نے سلام کیااور ان کے سامنے چار زانو بیٹھ گیا۔آپس میں کافی باتیں کیں مگرمیں نے مفہوم نہیں سمجھا۔صرف آخری بات جو اس نے فرماٸی وہ یہ تھی کہ تم نے کس قدر عبادت کی تھی اب اگر ایک سجدہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ حضرت خواجہ ؒ کے نکات ہر لحاظ سے اس پر اثر کرتے تھےاس کا رنگ سفید ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ مجلس کے اختتام پر اس کا سارا چہرہ سفید ہوا پھر ایک گھڑی بعد وہ چلا گیا۔ میں نے عرض کی کہ یہ مرد کون تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ شیطان تھا ۔ جتنی بار خدا کے دوستوں سے ملاقات کی لیکن اپنی شکل میں نہں آیا ۔اس امت مرحوم میں ایک تو حضرت ابوالجناب رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ الٰہی سے درخواست کرنے پر اصلی صورت میں آیا ،دوسرا شخص فقير ہے جسکی اس بارے میں دعا قبول ہوٸی۔ حضرت میرزا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ حضرت کا سوال سجدہ کے متعلق تھا جوپوشیدہ رکھا گیا۔ پھر میں نے اس کی صورت کی تبدیلی کے بارے میں عرض کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ ولایت کی روشنی سے ہے جس کسی پر چمکتی ہے وہ روشن ہوجاتا ہے ۔جب اس جگہ سے اٹھے تو اصلی رنگ میں پھر نمودار ہوجاتا ہے اس واقع کا لب لباب یہی ہے کہ شیطان جیسےمخلوق پر بھی ولی اللہ کی صحبت میں رہنے سے مثبت تبدیلی آسکتی ہے لیکن اس سے دور اختیار کرنے پر اسکی اپنی خصلت یا کردار لوٹ کر آتا ہے
ایک اور واقع ان کے حوالے سے یوں بیان ہوا ہے کہ ایک دن حضرت شیخ عبدالنبی کبرویؒ جو اس زمانہ کے مشہور مشاٸیخین میں سے تھے نے عرس مبارک حضرت سیادت پناہی میر سید علی ہمدانی رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کی تقریب کے سلسلے میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا تھاجس میں بعض اکابر اور معززین کودعوت دی گٸی تھی۔ حضرت منبع اسرار خواجہ حبیب اللہ عطارؒ بھی اس دعوت کو قبول کرکے تشریف لاٸے تھے۔اتفاقاً مفتی ملّا محمد مانٹجی جو بابا کے مریدوں میں سے تھا حاضر ہوٸے ۔سب حاضرین انکی تعظیم میں کھڑے ہوگٸے۔حضرت خواجہؒ جو اکثر مراقبہ میں ہوتے تھے اور ان کو مولوی صاحب کے آنے کی اطلاع نہیں ہوٸی، اس لیے اس کی تعظیم نہیں کی۔ ایسی حرکت مفتی صاحب کو ناگوار گزری ۔جب حضرت خواجہؒ نےمراقبہ سے سر اٹھایا تو اتفاقاً مجلس میں علمی ماحول چھایا تھا اور علمی بحث ہورہی تھی حضرت خواجہ نے جیسا کہ چاہیے تھا علمی نکات کا جواب دیا۔مولوی صاحب کو اس کی تعریف تعظیم نہ کرنے کا کینہ دل میں موجود ہی تھا اس لیے حضرت خواجہؒ سے خطاب کیا کہ جب اہل علم حاضر ہوں تو چپ رہا کرو۔اُمّی کےلیے مناسب نہیں کہ وہ اس وقت بات کرے۔حضرت خواجہؒ یہ سن کر شرمندہ ہوٸے۔انہوں نے فرمایا کہ اُمّی اہل علم کی مجلس کےلاٸق نہیں ۔یہاں نفاق کی بو آتی ہے ۔یہ فرماکر مجلس سے مُنہ موڑا ۔صاحب خانہ یا میزبان نے ان کے پیچھے جاکر انکو راستہ میں روکا اور بہت عجزوزاعی کی۔ ان کوواپس گھر لاکر دوسرے کمرے میں بٹھادیا۔اسی اثنا ٕ میں ایک شخص آیا اس نے عرض کی کہ مولوی صاحب کہتا تھا کہ اے دوستو گواہ رہو کہ اس شخص نے مجھے منافق کہا ہے۔کل میں سردربار اس کو منصور(شیخ منصور) کی مانند سزا دلاوں گا ۔حضرت میزار کامل ؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات سننے سے حضرت خواجہ کے حالات اچھے ہونے لگے۔بحرالعرفان میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا
بود منصور پیش مرشد خویش
پای بیرون نہادہ از حد خویش
در حق او دعای پیران بود
تا زِ انجام کار او بنمود
در حق من دعای پیران نیست
بر سخنہاٸی مولوی جان نیست
باطن پیر من مددگار ستر
در چنیں وت ہامرا یار نیست
چشم دارم کہ ہم درین محفل
قہر حق می شود بروقت نازل
مولوی گر بعلم مغرورست
تا بفردا ش راہ بس دورہ استفادہ
گر منم جانشین درویشان
مولوی شدت حوالہ ایشان
ترجمہ
منصور اپنے مرشد کے پاس تھااس نے اپنے حدود سے باہر پاوں نکالے اس کے حق میں پیروں کی دعا شامل حال تھی تاکہ اس کے کیے ہوۓ کام یعنی جو کچھ اس کا انا الحق کا دعوی تھا کا انجام دیکھے۔میرے حق میں مرشیدین کی دعا نہیں ہے یعنی میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے کہ میرے مرشد منصور کے حق میں کی گٸی جیسی دعا مجھے دے دیں۔مولوی کیہ باتوں میں جان نہیں ہے یعنی ان میں کوٸی وزن نہیں۔میرا مرشد باطنی طور میرا مدد گار ہے۔ایسی ضرورت کے وقت وہ میرا دوست یعنی ہم نوا ہے۔مجھے یہ امید ہے کہ اسی مجلس میں مولوی کے گفتار کی وجہ سے اس پر اللہ کا قہر نازل ہوجاٸے گا۔اگر مولوی علم کی بنا پر مغرور ہے تو زیادہ سے زیادہ کل تک کی مہلت اس کےلیے بہت دور یا زیادہ ہے اگر میں واقعی درویشوں کا جانشین ہوں تو مولوی فیصلہ کےلیے ان کے سپرد ہوا ۔
حضرت خواجہ عطارؒ دیگر اصحاب کے ساتھ کھانا کھانے سے فارغ ہوٸے۔اہل مجلس اور مولوی ابھی کھانا کھا ہی رہے تھے کہ مولوی کو قے آنے لگی اور اس پر فالج کا دورہ پڑا۔وہاں سے اس کو اٹھا کر اس کے گھر لے گٸے۔پھر طبیبوں نے اگر چہرہ اسکا علاج کیا لیکن کوٸی افاقہ نہ ہوا۔فقیر کی دعا بدستور غالب تھی۔جب حضرت خواجہؒ کبھ کبھی مشاہدہ جمال حق تعالیٰ کو ظاہری صورتوں کے مظاہر میں مشغول ہوتے تھے اس مقام پر حسین اطلاق یعنی جمال ربانی ان پر مشہود ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں مولوی کا کوٸی قریبی شخص اسکے خاندان کی چند خواتین کو ساتھ لاکر انکے دولت خانہ پر اظہار معذرت کےلیے حاضر ہوا۔انہوں نے نہایت عجز و زاری کی۔ حضرت خواجہؒ کو اس کے حال پر رہ حمل آیا۔ان کی صحت یابی کےلیے ہاتھ دعا کےلیےاٹھاٸے۔اسی وقت مولوی کی زبان کھل گٸی۔مولوی نے کہاکہ جو کچھ علم میں نے پڑھا تھا اس کی حقیقت مجھے دکھاٸی گٸی۔ میں نے دیکھا کہ وہ ایک بال کی بھی قدر نہں رکھتا۔ کہتے ہیں کہ جو تیر کمان سے نکل گیا وہ واپس نہیں آتا۔حضرت خواجہؒ نے اس سے فرمایا کہ اب توبہ کرو، شاید ایمان سلامت رہے۔جونہی استغفار کرنے کا ارادہ کیا ،اس کی زبان پھر بند ہوگٸی۔پھر اس سے اٹھا کرہ لےگٸے اور وہ راستے میں ہی فوت ہو گیا۔سردی کی وجہسے اس کے تمام اعضا ٕ سرد ہوگٸے، غسل دینے کے وقت لوگوں نے کوشش کی کہ اس کے ہاتھ پاوں دراز کریں مگر وہ بالکل نہ کھل سکے۔ اس واقع کی توجہیی اس حدیث مبارک کے پس منظر میں بیان کی جاسکتی جس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاروایت ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس شخص نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی، میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے”اس حدیث شریف سے عیاں ہے کہ وہ مومن جو ایمان اور تقویٰ کے تمام مراحل طے کرچکا ہو.اب ایسے ولی کے خلاف جو بھی بغض رکھے گا‘عداوت رکھے گا‘ دشمنی کرے گا تو اللہ کی طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ظاہر بات ہے کہ یہ تو مروّت اور شرافت کا تقاضا ہے. اگر ایک شخص اللہ کی حمایت میں لگا ہوا ہے تو اس کے دشمن اللہ کے دشمن ہو گئے‘لہٰذا اللہ کے اولیاء سے عداوت رکھنے والے براہِ راست اللہ سے جنگ مول لے رہے ہیں ‘
ایک دن ایک بزرگ خاتون نے حضرت خواجہ رحمتہ اللہ علیہ سے عرض کی کہ میری تمام عمر کا سرمایہ ایک فرزند تھا ۔بہت مدت ہوٸی کہ وہ سفر پر چلا گیا تھا، اب وہ وہاں اے لوٹ کر زاد راہ یا سفر کا خرچہ نہ ہونے کی وجہ سےلاہور کے خطے میں رہ گیا ہے اورمیں اسکی جداٸی سےاس قدر پریشان ہوں کہ میں اس غم میں گھل رہی ہوں یا مررہی ہوں حضرت خواجہ ؒ نے اس اے فرمایا کہ۔کچھ وقت تک صبر کرو تاکہ میں وہاں تجارت پیشہ لوگوں کو لکھوں وہ اس کی معاونت کرکے اس کو اپنے گھر کی طرف روانہ کریں۔ اس عورت نے نہایت اضطرار اور اضطراب کا اظہار کیا۔ حضرت خواجہ ؒ کو اس پر رحم۔آیا ۔انہوں نے فرمایا کہ جاوید اور دیکھو کہ خدا کیا کرتا ہے۔دوسرے دن وہ۔خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ حضرت خواجہؒ کی خدمت میں آٸی ، لوگوں نے اس لڑکے کے آنے کی کیفیت دریافت کی۔ لڑکے نے کہا کہ نماز عشا ٕ کے بعد جب میں لاہور کی مسجد سے باہر آیا تو حضرت خواجہؒ سامنے دیکھے اور انہوں نے فرمایا کہ اگر تو کشمیر آنے کا ارادہ رکھتا ہے تو آواز، میریہ سوادی پر بیٹھو ۔جونہی میں سوار ہوا تو مجھے نیند آٸی اور جب بیدار ہوا تو میں نے اپنے آپ کو اپنے محلے کی مسجد میں پایا۔
حضرت خواجہؒ نے
طویل عمر پاٸی ۔
حضرت خواجہ حبیب اللہ کی وفات دو رجب المرجب 1084 ہجری مطابق اکتوبر 1673 کو ہوئی۔ محلہ قطب الدین پورہ میں اپنے گھر کے قریب ہی انکی آخری آرام گاہ ہے جو کہ آجکل ڈب تل گرگڑی محلہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہر سال ٢ اور ٣ رجب کو انکے مرقد پر انکے معتقدین ختمات المعظمات اور ذکر و اذکار کی مجالس منعقد کرتے ہیں
فخر اقطاب شیخ دین عطار
مظہر نور و زبدة ابرار
ناٸب شاہان جیلیؒ و ہمدانؒ
نقشبندؒ و معینیؒ و علمدارؒ
صرفیؒ وحمزہؒ قاسمؒ و یعقوبؒ
روضہ اوست مطلع انوار
ہست منظور سرور عالم
طالع حکم اوست لیل و نہار
آن حبیب حبیب ،حبیب اللہ
دستگیر ہمہ صغار و کبار
سال او کاملیؒ گفت کہ "بود
منبع الاسرار و مطلع انوار