سرینگر//جموں و کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی شفاف ڈھنگ سے تیار کرنے کا بھروسہ دلاتے ہوئے سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کی سربراہی والی سہ رکنی کمیشن نے کہا کہ کمیشن رپورٹ تیار کرنے کے بعد عوامی عدالت میں ردعمل کیلئے پیش کی جائے گی جس کے بعد ہی نئے اسمبلی حلقوںکی نئی شیرازہ بندی سے متعلق حتمی فہرست جاری کی جائے گی۔کمیشن نے اعلان کیا کہ حد بندی2011 کی مردم شماری کے تحت عمل میں لائی جائے گی اور اس کیلئے حالیہ دورے دوران حاصل کی گئی تمام سفارشات اور مطالبات کو زیر غور لانے کے بعد تیار کیا جائے گا۔سہ رکنی ٹیم نے ان خدشات کو سختی سے مسترد کیا کہ کوئی چیز پہلے سے طے شدہ ہے۔اس نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو کمیشن یہاں کیوں آتا۔ایس این ایس کے مطابق سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی کی سربراہی والی سہ رکنی ٹیم نے جمعہ کو جموں کشمیر کا اپنا 4روزہ خصوصی دورہ سمیٹ لیا جس کی بعد ٹیم واپس دلی روانہ ہوئی۔دلی روانگی سے قبل ٹیم نے جموں میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صاف کردیا کہ جموں کشمیر میں اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی 2011کی مردم شماری کے مطابق ہوگی۔ٹیم کی سربراہ ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاس ڈیسائی نے اعتراف کیا کہ جموں کشمیر میں حد بندی کا عمل ایک کٹھن کام ہے اور یہ کوئی خیالی کام نہیں ہے۔تاہم ا س نے عوام کو بھروسہ دلایا کہ پورا کام شفاف اور غیر جانبدار بنیادوں پر انجام دیا جائے گا اور لوگوں کو کسی بھی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیا جائے گا۔اس موقعہ پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا جوکہ سہ رکنی کمیشن کا ایکس آفشو ممبر بھی ہے ،نے کہا کہ حد بندی2011کی مردم شماری کے مطابق انجام دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ یونین ٹریٹر ی میں اسمبلی حلقوں کی پہلی مکمل حد بندی1963میں انجام پائی ہے جس کے بعد 1973اور 1995میں آخری بار حد بندی عمل میں لائی گئی جبکہ 1981کی مردم شماری کی سفارشات14سال بعد1995ء میں پیش کی گئیں جبکہ اس کے بعد آج تک کوئی نئی حد بندی نہیں کی گئی ہے چیف ۔الیکشن کمشنر نے مزید بتایا کہ اب کی بار سال 2021میںجو حد بندی ہوگی وہ جموں کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019سیکشن62کے تحت سال 2011کی مردم شماری کے مطابق ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ تنظیم نو ایکٹ کے حصہ Vکے مطابق ہی جموں کشمیر کے24اسمبلی حلقے اور رقبہ جو کہ پاکستان کے زیر انتطام کشمیر میں پڑتا ہے ،بدستور خالی رہیں گے۔ چیف الیکشن کمشنر کے مطابق1995میں جموں کشمیر میں صرف 12ضلعے تھے جو اب لداخ کو چھوڑ کر20ہیں۔انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ کچھ اسمبلی حلقے ضلعے حدود کے باہر ہیں اور دوسرے اضلاع میں شامل ہیں جبکہ تحاصیل بھی اسمبلی حلقوں میں منقسم ہیں جس سے لوگوں کو کافی مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے اس مسئلے کو نئی حد بندی کے دوران حل کرنے کا عندیہ بھی دیا تاکہ لوگوں کی ایک بڑی مشکل حل ہوسکے۔انہوں نے شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب کو بھی نئی حد بندی میں جگہ دینے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ قانون ان طبقوں کو حد بندی میں جگہ دینے کی اجازت دیتا ہے۔انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ حد بندی کا خاکہ موجودہ دورے کے دوران عوام اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے حاصل شدہ سفارشات اورتجاویزو مطالبات کا جائزہ لینے کے بعد تیار کیا جائے گا۔کمیشن کے دائرہ اختیار پر پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے خدشات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میںٹیم میں شامل ڈپٹی الیکشن کمشنر چندر بھوشن نے ان افواہوں کی سختی سے نفی کرتے ہوئے کہ سب کچھ پہلے سے طے ہے، ڈپٹی چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو کمیشن یہاں کیوں آتا اور ہر ایک کے ساتھ ملاقات کرنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جاتی۔انہوں نے کہا کہ کوئی چیز پہلے سے طے شدہ نہیں ہے۔جبکہ حقیقت میں حد بندی سے متعلق حتمی مشق شروع کرنے سے قبل ہم سب کا نقطہ نظر جاننا چاہتے ہیں۔اس لئے اگر کسی کے ذہن میں خد شات ہیں تو وہ فوراًدور ہوجانے چاہئے۔اس سے قبل اس سہ رکنی کمیشن نے آج صبح پہلے جموں صوبے کے سات ڈپٹی کمشنروں سے ملاقات کی اور ان سے ان کے اضلاع میں آنے والے اسمبلی حلقوں کی شیرازہ بندی،جغرافیائی حدود اور آبادی وغیرہ کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔ان سات اضلاع میں جموں ،سانبہ،کھٹوعہ،ادھمپور،ریاسی،راجوری اور پونچھ شامل ہیں۔جبکہ ٹیم کے ساتھ جموں اور دیگر 6اضلاع کے درجنوں وفود بھی ملے جن میں سول سوسائٹی،غیر سرکاری تنظمین اور وکلا ء وغیرہ شامل تھے۔حد بندی کمیشن سے متعلق مرکزی سرکار کی تشکیل شدہ ٹیم 6جولائی کو سرینگر کے دورے پر آئی تھی اور اس میں سابق جج رنجنا پرکاش ڈیسائی،چیف الیکشن کمشنر سشیل چندرا اور ڈپٹی الیکشن کمشنر چندرا بھوشن شامل ہیں۔8اور9جولائی کو ٹیم نے خطہ چناب اور جموں کے دوسرے اضلاع کا بھی دورہ کیااور جموں کشمیر میں آئندہ اسمبلی الیکشن سے قبل اسمبلی حلقوں کی نئی بندی سے متعلق مختلف تعلق داروں سے ان کی آراء اور تجاویز حاصل کیں۔