مانیٹرنگ
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق بی بی سی کی دستاویزی فلم پر ’نسلی الزامات‘ پر مبنی ریمارکس دینے پر برطانوی پارلیمنٹ (ہاؤس آف لارڈز) کے ایک کنزرویٹو رکن کو سخت تنقید کا سامنا ہے۔
رپورٹ کے مطابق کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے رمندر سنگھ رینجر جنہیں لارڈ رامی رینجر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، انہوں نے بی بی سی ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی کو ایک خط لکھا جس میں پوچھا گیا کہ کہیں اس احمقانہ حرکت کے پیچھے آپ کا پاکستانی نژاد عملہ تو ملوث نہیں۔
گارڈین نے مزید رپورٹ کیا کہ ٹوری لیڈر نے دستاویزی فلم کو غیر حساس، یک طرفہ قرار دیا اور بی بی سی پر الزام لگایا کہ اس نے برطانوی ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پیدا کر کے پرانے زخم ہرے کردیے۔
رمندر سنگھ رینجر نے فلم کو بھارتی وزیر اعظم کی توہین قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ انہیں فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔
اپنے جواب میں رمندر سنگھ رینجر نے اپنے ریمارکس کا دفاع کیا۔
گارڈین نے رمندر سنگھ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ میں نے بی بی سی کے ’کسی پاکستانی نژاد‘ عملے کا حوالہ دیا، بدقسمتی سے برصغیر کی سیاست برطانیہ پر اثر انداز ہونے کے حوالے سے جانی جاتی ہے جو کہ ہمارے سماجی ہم آہنگی اور حساس نسلی تعلقات کے لیے سازگار یا مددگار نہیں ہے۔
گارڈین نے مزید رپورٹ کیا کہ جس دن دستاویزی فلم کا دوسرا حصہ ریلیز کیا گیا، اس روز ایک اور کنزرویٹو رکن ڈولر پوپٹ نے بھی بی بی سی ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھا جس میں فلم کو بہت زیادہ یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اسے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بی بی سی نے دستاویزی فلم بنانے والے صحافیوں کا دفاع کیا، ترجمان نے کہا کہ فلم پر اعلیٰ ادارتی معیارات کے مطابق سخت تحقیق کی گئی۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے رائٹرز نے خبر دی کہ بھارتی حکومت کی جانب سے آئی ٹی قوانین کے تحت ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یوٹیوب اور ٹوئٹر پر دستاویزی فلم کو بلاک کرنے کے اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جو آئندہ ہفتے درخواستوں کا جائزہ لے گی۔
رائٹرز کے مطابق نئی دہلی کے وکیل ایم ایل شرما نے درخواست میں حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کی، وکیل پرشانت بھوشن، صحافی این رام اور اپوزیشن سیاست دان مہوا موئترا کی جانب سے دائر ایک الگ درخواست میں دستاویزی فلم کے سوشل میڈیا لنکس ہٹانے کے حکم پر نوٹس لینے کی استدعا کی گئی۔
رپورٹس کے مطابق 2 حصوں پر مشتمل بی بی سی کی دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی وزیراعطم نریندر مودی نے گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پولیس کو حکم دیا تھا کہ وہ خون ریز فسادات نظرانداز کردیں۔
0گجرات میں یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے تھے جب ایک ریل پر آتش زدگی کے نتیجے میں 59 ہندو یاتری ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد 31 مسلمانوں کو قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی۔ رپورٹس کے مطابق ان فسادات میں ایک ہزار افراد جان سے گئے تھے اور ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
دستاویزی فلم میں برطانوی وزارت خارجہ کی کلاسیفائیڈ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ فسادات سیاسی بنیاد پر شروع کیے گئے تھے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو ہندوؤں کے علاقے سے بے دخل کرنا تھا۔
0رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مودی انتظامیہ کی جانب سے دیے گئے استثنیٰ کے بغیر یہ فسادات ممکن نہیں تھے۔
بھارتی حکومت نے مذکورہ دستاویزی فلم کو بے بنیاد پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا اور ٹوئٹر اور یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا پر شیئر اور نشر کرنے پر متنازع انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون کے تحت روکنے کا حکم دیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے کے آغاز پر نئی دہلی کے حکام نے معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی پر فلم نشر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اگر حکم کی تعمیل نہیں کی گئی تھی تو سخت انضباطی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
حکومتی تنبیہ کے باوجود طلبہ کے گروپس وہاں موجود تھے اور ملک بھر کی مشہور جامعات میں لیپ ٹاپ اور موبائل فونز کی اسکرینز پر دستاویزی فلم دیکھنے کے لیے جمع ہوگئے تھے۔
یاد رہے کہ نریندر مودی نے 2001 سے 2014 میں وزیراعظم بننے تک گجرات میں حکمرانی کی اور انہی فسادات کی وجہ سے ان کے امریکا میں داخلے پر مختصر عرصے کے لیے پابندی بھی عائد رہی۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے ان فسادات میں نریندر مودی اور دیگر کے کردار کے بارے میں تحقیقات کے لیے ایک تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دی تھی اور 2012 میں اس ٹیم نے رپورٹ میں بتایا کہ انہیں اس حوالے سے کوئی ثبوت نہیں ملے۔