ایک نوجوان کو ایک دن اس بات کا احساس ہوا کہ جس عقیدے پر وہ اب تک زندہ تھا وہ بہت بوسیدہ ہے اور قابل اعتماد نہیں ہے۔اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ ملکر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا عقیدہ بدل کر اب اسلام میں داخل ہوگا۔
اس کو قران کی ایک تفسیر پڑھ کر یہ احساس ہوا کہ یہ عقیدہ ایسا ہے جو ہر لحاظ سے مضبوط ہے اور اس میں یکجہتی اور سماجی برابری پر زور دیا گیا ہے۔ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی پر جنم، رنگ یا ذات کی وجہ سے فوقیت نہیں رکھتا ۔سب ایک جیسے ہیں۔ مالکِ کل کی نظر میں سب برابر قیمت رکھتے ہیں ۔صرف وہ بہتر ہیں جن کے اعمال بہتر ہوں مگر چونکہ دنیا میں کوئی اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کس کا عمل زیادہ بہتر ہے اور قبول ہوا ہے اس لئے یہاں سب ایک ہی جیسے ہیں۔کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی کو ایسا کوئی طعنہ دے جس میں کسی بھی طرح سے اس کی تزلیل ہو۔اس کا ایک مسلم دوست تھا۔اس دوست نے جب اس کو قران کریم سنا کر کچھ آیات کا مطلب سمجھایا تو اس کو عجیب سکون کا احساس ہوا۔ یہ نوجوان خوش ہوا کہ اس کو آخر کار نجات کا راستہ مل گیا ۔اس لئے ان دونوں دوستوں نے ایک خاص جگہ کا انتخاب کر لیا جہاں پر یہ نوجوان ایک مولوی صاحب کی حاضری میں اسلام میں داخل ہوجاتا۔ کیونکہ مسلمان نوجوان کو معلوم ہوا تھا کہ اس کے لئے ایک عالم کا بروقت عمل حاضر ہونا ضروری ہے۔
اگلے دن صبح یہ نوجوان جو مسلمان ہونے والا تھا گھر سے ہزاروں خواہشیں اور لاکھوں امنگیں دل میں لے کر روانہ ہوا۔ وہ ایسے خوش تھا جیسے کسی بھاری بوجھ سے اب آزاد ہونے والا تھا۔ راستے میں اسکو اپنا دوست نہ ملا ۔چونکہ اس کو اس مولوی صاحب کے گھر کا پتہ معلوم تھا۔ اس کو لگا کہ اس کا دوست بھی وہیں ہوگا۔ وہ بے تابی سے جلدی وہاں پوہنچنے کے لئے چلتا رہا۔
جب وہ مولوی صاحب کے گھر کے اندر داخل ہوا تو اس نے وہاں کئی اشخاص کو صاف ستھرے کپڑوں میں مبلوس پایا ۔چند ایک کے سروں پر امامے تھے، کچھ نے ٹوپیاں پہن لی تھیں ۔تقریباً سب کمیز شلور پہنے ہوئے تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ حیران نہ ہوا۔ وہ ان کے رہن سہن سے پہلے ہی واقف تھا ۔ لیکن اس کو لگا کہ وہ سب ایک ہی مزہب کے ساتھ وابستہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے خفا نظر آرہے تھے اور اس کو احساس ہوا جیسے ان کے درمیان اتحاد کے بجائے اختلاف کی گرمی گردش کر رہی تھی۔ وہ سب اس کو دیکھ کر چونک گئے۔ اس کی نظریں اپنے دوست کو ڈونڈ رہی تھیں۔ اس کے آنے سے پہلے سب گرم گفتگو میں محو تھے لیکن اس کو دیکھ کر وہ کچھ دیر خاموش ہوئے تھے۔ مگر ان کا انداز اس بات کو ایاں کرتا تھا کہ وہ زیادہ دیر خاموش رہنے کے عادی نہ ہونگے۔ وہ ان سب کو دیکھ کر پشیماں سا نظر آرہا تھا۔ نہ جانے کیوں وہ کچھ بول ہی نہیں پا رہا تھا۔ وہ سب عالم حضرات اس کو دیکھ کر عجیب سی کشمکش میں مبتلا ہونے لگے۔ وہ اوپر سے نیچے اسے تاکنے لگے۔ اس کی نگاہوں میں ان سب کے لئے احترام نظر آرہا تھا ۔ ان سب کی نگاہوں میں الجھن تھی پریشانی تھی۔ اس کا انداز حیا سے لبریز تھا۔ ان کا انداز نفرت سے بھرا لگ رہا تھا۔ اس نے انکو دل سے نیک جانا ۔ انہوں نے اسکو شاید بد تصور کیا۔ اس نوجوان کی نگاہیں جکنے والی تھیں ۔ ان کی نگاہیں تاکنے والی تھیں۔
بہر حال ان میں سے ایک نے اس نوجوان سے مخاطب ہوکر پوچھا،
” کون ہو بھئ ، یہاں کیوں آئے ہو ؟”
یہ سن کر دوسرے نے اسی سے پوچھا
” یہ کیا طریقہ ہے سلام کے بغیر کون داخل ہوتا ہے ؟
تیسرے نے کہا ” مفتی صاحب یہ آج کل کے لونڈے ۔ ان کو علما کا تمیز نہیں ہے۔”
ایک اور نے کہا۔ ” ہاں حضرت ، اور یہ خود کو پڑھے لکھے سمجھتے ہیں”
پہلا جناب اس پر ہنسنے لگا۔ ” ان کی تعلیم ہی ایسی ہے مفتی صاحب”
ایک نے کہا” ہاں مغرب کی بے سود تعلیم”
کسی نے کہا ، ” یہ خود کو بھی انگریز سمجھنے لگتے ہیں۔”
پھر ان میں سے ایک نے اس نوجوان کو غور سے تاکتے ہوئے کہا، ” اس کا حلیہ تو دیکھو حضرات ”
دوسرے نے کہا، ” بال لمبے ، کپڑے غیر اسلامی اور طریقہ کافرانہ۔ استغفراللہ”
تیسرے نے حیرت کے اظہار سے کہا ، ” اور وہ تو دیکھو اس نے بازو میں کیا پہنا ہے !”
دوسرے کے منہ سے چیخ سی نکل گئی ،
” کڑا ، استغفراللہ ”
وہ نوجوان سمٹ گیا ۔ وہ اپنے بازو چھپانے لگا۔ مگر سر اور منہ کا کیا کرتا۔ اس کے انداز سے لگتا تھا وہ شرمسار ہے۔ مگر یہ حضرات تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ وہ اس کو اپنی صفائی میں کچھ عرض کرنے کا موقعہ بالکل نہیں دے رہے تھے۔
ایک نے کہا۔ ” کیا بنے گا ہمارے قوم کا۔ ہم کن کی پیروی کر رہے ہیں۔ ”
دوسرے نے کہا ، ” میں نے کل ایک جگہ پڑا ہے کہ ایسے لوگوں کو آگ کے کڑے پہنائے جایں گے۔”
دودسرے نے فخر بھرے لہجے میں کہا ، ” ہاں انکو ستر سال تک ایک آگ کا کڑا ان کی گردن میں گھسا کر پھانسی پر لٹکا کر رکھا جائے گا ”
” ہاں اور یہ وہاں مر بھی نہ پایں گے ” دوسرے نے کہا۔
"پھر ستر سال گزرنے پر دوبارہ وہی عزاب ہوگا ” پہلے نے کہا ۔
” خدا بچائے” ایک نے کہا۔
وہ نوجوان اور سمٹ گیا ۔ مگر وہ خاموش تھا ۔ ان کو لگا کہ وہ ڈر گیا ہے۔ ان کا انداز فخر اور نفرت سے لبریز تھا۔ ان میں سے ایک نے غصے سے اس سے پوچھا۔ ” ہے لڑکے تم کچھ بولتے کیوں نہیں ؟ ”
دوسرے نے پہلے کے سوال کا جواب خود دینا مناسب سمجھا ، ” کیا کہے گا یہ بے حیا ، بے غیرت ، بے دین ”
وہ لرزا مگر کچھ نہ بولا ۔ وہ تو جیسے پشیمان تھا۔ جیسے کسی نے اسکو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو۔
پھر ایک نے دوسروں کی طرف دیکھ کر حیرانی سے دیکھ کر پوچھا ، ” مگر یہ ہے کون ؟”
دوسرے نے اس نوجوان کی طرف دیکھ کر کہا۔ کیا پتا۔ یہ کچھ بتاتا بھی تو نہیں ”
تیسرے نے حیرت کو اور جلا بخشی ، ” کہیں یہ ان میں سے تو نہیں ۔ جو مرتد ہوتے ہیں ۔ جو بے دین بنتے ہیں ! ”
سب حیرت سے اسے اوپر سے نیچے تک تاکنے لگے ۔ جیسے اس کے جسم پر ایسے کسی نشان کے تلاش میں ہوں جس سے اسکا بے دین یا مرتد ہونا ظاہر ہو۔ ان پر عجیب سا ایک ڈر اور عجیب سی ایک حیرت کا غلبہ ہوا۔
ان میں سے ایک سے رہا نہ گیا اور وہ اس کے قریب آ کر دھمکانے لگا
” اے لڑکے سچ بتا دے تو کون ہے ۔ ورنہ”
دوسرے نے اس کا ساتھ دیتے ہوئے کہا ، ” ہاں ورنہ ہم تمہارے کپڑے کھول کر دیکھ لیں گے ”
اس نوجوان کو ایسا لگا کہ جیسے اس کی عسمت خطرے میں آگئی ہو۔ وہ اور سمٹ گیا۔ اسکا دل دھٹکنے لگا اور وہ اپنے مالک کل کو یاد کرنے لگا ۔
ایک نے اسکو کچھ بھڑبھڑاتے ہوئے پایا تو غصے سے گرجا ، ” تو کیا بک رہا ہے ۔ ہمارے سوال کا جواب دے ”
اس نوجوان کو لگا کہ اب تو خدا ہی حافظ ہے۔ اس نے دل سے پکارا ،
” اے بنانے والے میری مدد کر ”
ان میں سے کسی نے اس کی آواز نہ سنی ۔ایک اس کے گریباں کو پکڑ کر پھا ڈنے لگا ۔ در وازہ کھلا تو اس نوجوان کا دوست داخل ہوا۔
” اسلام علیکم ”
کسی نے جواب دینا ضروری نہ سمجھا کیونکہ وہ تو اہم کام کے ساتھ مصروف تھے۔
وہ نوجوان اندر داخل ہوکر سیدھے اس مفتی صاحب کی طرف آکر اسے مخاطب ہوا۔ ” اسلام علیکم مفتی صاحب ۔ میں آج اپنے اس دوست کو آپکے پاس لایا ہوں ۔ یہ قران سن کر اسلام سے بہت متاثر ہوا ہے اور اب مسلمان ہونا چاہتا ہے ۔”
وہ سب جو وہاں تھے حیران ہوئے پر پشیمان نہ ہوئے۔
مفتی صاحب جس سے یہ مسلمان نوجوان مخاطب ہوا تھا خوشی سے بولے،
” یہ تو خوشی کی بات ہے ۔ ”
اس مسلمان نوجان نے کہا ” ہاں اسی لئے یہ یہاں آیا ہے ۔ مجھے آنے میں ذرا دیر ہوئی میں اس کے لئے شرمندہ ہوں ” دوسرا جملہ اس نے اپنے دوست کی طرف دیکھ کر کہا ۔
اسنے یہ سن کر نظریں جھکا لیں ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہدے کہ بہت دیر کی آپ نے لیکن وہ ندامت کی وجہ سے خاموش ہی رہا ۔ پھر سوچا چلو اور زیادہ دیر کرنے سے پہلے تو آیا۔اس کی عصمت تو کم سے کم سلامت رہی۔اس نے پھر بھی کچھ نہ کہا۔
ان حضرات میں سے جو وہاں موجود تھے ایک نے کہا ۔ ” اچھا تو یہ بات ہے ؟ یہ غیر مسلم ہے۔ ”
اس نوجوان کے دوست کہا ، ” جی مولوی صاحب ایسا ہی ہے ”
اس نے کہا ، یہ تو واقعی خوشی کی بات ہے۔ یہ تو جہنم سے جنت کی طرف آرہا ہے”
ان میں سے ایک نے اونچے لہجے میں کہا ، ” ٹھیک ہے پر اسکو پہلے یہ لمبے بال کٹوانے چاہیے۔ اور یہ کڑا وغیرہ پھینک دینا چاہیے”
. یہ سن کر ان دونوں دوستوں نے اقرار کے انداز میں سر ہلایا۔
لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا ، ” نہیں بال کاٹنا ضروری نہیں ۔ بس کڑا پھنک دو ”
تب ان میں سے دو تین حضرات نے اس مولوی کی طرف غصے سے دیکھ کر کہا ، ” کیا فرما رہیں ہیں آپ۔ اس کو چاہِیے کہ بال چھوٹے کرے ، اور یہ غیر اسلامی کہڑے پھنک دے اور قمیز شلوار جو اسلامی ڈرس ہے پہن لے اور پیجاما ٹخنیوں سے اوپر رکھے ”
وہ نوجوان سوچنے لگا اچھا تو اسلام کا ایک ڈرس کوڈ بھی ہے ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتاان میں سے ایک اور حضرت نے کہا ، ” ہاں ٹھیک ہے مگر پہلے میں اسے کلمہ پڑھاتا ہوں ”
اس پر ایک نے کہ جس سے غیر مسلم کا دوست سب سے پہلے مخاطب ہوا تھا نے اعتراز کیا، ” نہیں ، نہیں ‘ آپ کیوں ‘ یہ تو میرا کلینٹ ہے ”
اس پر سب حیرانگی سے دیکھنے لگے۔ وہ جو دو دوست تھے زیادہ حیران ہوئے۔ ان میں سے سب سے زیادہ حیران وہ ہوا جس کو کلمہ پڑھنا تھا اس نے سوچا، "ابھی تو یہ سب میرے خلاف ایک ٹیم کی طرح تھے۔ اب یہ آپس میں ایسے کیوں لڑ رہے ہیں ؟ اور یہ مجھے کلینٹ کیوں سمجھ رہے ہیں ” مگر وہ پھر بھی کچھ نہ بولا۔
ان حضرات میں سے ایک نے غصے سے کہا ، ” اس نوجوان کو چاہیے کہ ہمارے مسلک کے ساتھ رابطہ کرے ورنہ یہ صرف کافر سے مشرک بن جائے گا۔ ”
وہ جس نے اسے اپنا کلینٹ کہہ دیا تھا کہنے لگا ، ” ارے حضرت ہم آپ کی عزت کرتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کچھ بھی فرمادیں۔ اگر آپکے مسلک سے رابطہ کیا تو گستاخ بنے گا۔”
یہ الفاظ سن کر وہ نوجوان کہ جو اسلام سے متاثر ہوا تھا اور بہت زیادہ کنفیوز ہوا۔ وہ سوچنے لگا، ” یہ مسلک کا کیا معاملہ ہے ؟ یہ تو قران میں کہیں نہیں پڑا میں نے ! ” مگر وہ خاموش ہی رہا۔ اگر چہ اس کے دوست سے رہا نہ گیا ۔ اس نے اپنے دوست کے بغیر سب سے مخاطب ہو کر کہا۔ ” ارے حضرات آپ سب علما ہیں ، مفتی ہیں یا مولوی ہیں۔ یہ قران پڑھ کر متاثر ہو ا ہے خود دین مبین کو گلے لگانا چاہتا ہے۔ اب کوئی بھی مسلک ہو۔ اس سے کیا فرق پڑھتا ہے۔ آپ اسے کلمہ پڑھایں۔”
ان میں سے ایک نے غصے سے جواب دیا۔ ” دیکھو تم عالم نہیں ہو اور تم مزہب کی ان بارکیوں سے ناواقف ہو۔ یہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ تم مزہب کے بارے میں ہر ایک فیصلہ خود نہیں کرسکتے ہو کیوں کہ تم عالم نہیں ہو۔”
باقی حضرات میں سے تقریباً ہر ایک نے سر ہلا کر اس کی تایید کی۔
وہ نوجوان کچھ نہ کہہ سکا ۔ مگر اس کا دوست جو قران پڑھ کر متاثر ہوا تھا سوچنے لگا ، ” میں نے تو سنا تھا یہ آسان ہے۔ دل سے خدا کو واحد اور یکتا مان لو اور اس کے رسولﷺ کو اس کا سچا بندا اور پیغمبر مان لو۔ کیا میں نے غلط پڑھا ہے؟ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ان حضرات میں ایک نے پوچھا ، ” اچھا یہ تو بتا دو تم نے قران کا کون سا تر جمہ اور تفسیر پڑھی ہے چونکہ تم عربی تو جانتے نہیں ”
اس کے مسلم دوست نے جواب دیا ، "جناب اس سے کیا فرق پڑھتا ہے ؟”
اس حضرت نے کہا ؛ ” بہت فرق پڑھتا ہے ۔ یہ تم کو سمجھ میں نہ آئے گا کیوں کہ تم عالم نہیں ہو۔ ”
دوسرے حضرت نے پہلے کی تایید میں کہا ؛ ” دنیا کے ہر معاملے میں تم اکسپرٹ سے پوچھتے ہو مگر دین کے معاملے میں تم کیوں خود ہی اکسپرٹ بن جاتے ہو ؟”
وہ نوجوان کچھ نہ کہہ سکا ۔ مگر اس کا غیر مسلم دوست سوچنے لگا، ” کیا پھر میں نے سہی والا قران نہیں پڑھا تھا ؟ کیا میں ایسے ہی سوچ رہا تھا کہ یہ دین آسان ہے ؟ ”
مگر پھر ان میں سے ایک حضرت نے فیصلہ دینے کے انداز میں سب سے مخاطب ہو کر کہا ۔ ” دیکھِے یہ نوجوان اسلام قبول کرنے آیا ہے۔ کیوں نہ ہم اسکو سب سے پہلے کلمہ پڑھادیں ورنہ ہمارا نقسان ہو سکتا ہے ۔ بعد میں باقی باتوں پر غور کرلیں گے۔” یہ سن کر وہاں موجود سب لوگ سوچنے لگے۔ ان میں سے کچھ علما نے سوچا کہ موقعہ نہیں گنوانا چاہیے ، مسلم دوست نے سوچا کہ اگر اسے معلوم ہوتا کہ یہ اتنا مشکل ہے تو وہ اپنے دوست کو شاید یہاں نہ لاتا ۔ مگر غیر مسلم دوست نے فیصلہ کیا کہ اس سے شاید بہت بڑی بھول ہوئی ہے ۔ اس بار وہ خاموش نہ رہا ۔اس نے عرض کیا ۔ "حضرات مجھ سے شاید کوئی غلطی ہوئی ہے۔ شاید ایک بڑی غلطی ۔ میں جاکر اس پر غور کروں گا ۔ ابھی میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں ۔اس وقت مجھے زہنی کوفت کا احساس ہوتا ہے۔ معزت چاہتا ہوں ۔”
ان الفاظ کے ساتھ ہی وہ روانہ ہوا۔ وہ سب جو وہاں موجود تھے حیرت سے ایک دوسرے کو تاکنے لگے۔ اس غیر مسلم نوجوان کا دوست پشیمان نظر آیا اور اس غییر مسلم نوجوان نے باہر جا کر سنا کہ اندر شور و غل بپا تھا ۔ وہ اپنے ارادے پر غور کرنے لگا مگر اسے کچھ سجھائی نہ دیا اور اس نے سوچا کہ اب چلنا چاہیے۔
ہلال بخاری
ساکنہ: ہردوشورہ کنزر