کابل: طالبان (Taliban) جنگجووں کے ذریعہ افغانستان (Afghanistan) کے اہم علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد ہندوستان نے قندھار (Kandhar) سے تقریباً 50 سفارتی عملے اور سیکورٹی اہلکاروں کو ہندوستانی فضائیہ کے طیارے سے بلالیا ہے۔ ہندوستان نے کہا کہ کابل، قندھار اور مزار شریف شہروں میں قونصلیٹ میں اپنے مشن کو بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ افسران نے کہا تھا کہ ہندوستان افغانستان میں خراب ہوتی صورتحال پر قریب سے نظر رکھ رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ یقینی بنانے کے لئے سبھی اقدامات کئے جائیں گے کہ ہندوستانی افسران اور شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔انگریزی اخبار ’ہندوستان ٹائمس‘ کے مطابق، ایک افسر نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہندوستان – تبت سرحدی پولیس (آئی ٹی بی پی) کے سفیروں، معاون ملازمین اور سیکورٹی گارڈوں کو نئی دہلی لائے جانے کے بعد قندھار میں ہندوستانی قونصلیٹ کو عارضی طور پر بند کردیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، قندھار اور ہیلمند کے جنوبی صوبوں میں پاکستان واقع لشکر طیبہ کے دہشت گرد بڑی تعداد میں موجود ہیں، جس کے سبب سفارتی عملہ اور سیکورٹی اہلکاروں کو باہر نکالا گیا۔ افغان سیکورٹی ایجنسیوں کے حالیہ اندے کے مطابق، 7,000 سے زیادہ لشکر طیبہ کے جنگجو جنوبی افغانستان میں طالبان کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔طالبان جنجگووں نے جمعہ کو قندھار کے ساتویں پولیس اضلاع میں گھروں پر قبضہ کرلیا، جس کے بعد ہفتہ کے روز تک زبردست جدوجہد جاری رہا۔ افغان فوج نے کہا کہ ساتویں پولیس ضلع اور پاس کے ڈانڈ ضلع میں ہوئی لڑائی میں تقریباً 70 طالبان جنگجو مارے گئے۔ ساتویں پولیس ضلع کے تقریباً 2 ہزار خاندان بے گھر ہوگئے اور قندھار کے دیگر حصوں میں پناہ لینے کے لئے مجبور ہیں۔ قندھار، افغانستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہ لمبے وقت سے اسٹریٹجک اور تجارتی نظریے سے اہم رہا ہے۔ سال 1990 کی دہائی کے وسط سے سال 2001 تک قندھار، طالبان کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ہندوستان، افغانستان میں سفارتی عملہ اور تقریباً 3,000 ہندوستانی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ہندوستان، امریکہ جیسے اہم ممالک کے ذریعہ سفارتی عملے کے تحفظ کے لئے اٹھائے جا رہے اقدامات پر سخت نظر رکھنے کے ساتھ اپنے متبادل پر غور کر رہا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں ہندوستان نے کووڈ-19 کے سبب، ہیرات اور جلال آباد میں اپنے قونصلیٹ کو بند کردیا تھا۔ حالانکہ کچھ رپورٹس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیکورٹی اسباب سے ہندوستان نے یہ قدم اٹھایا ہے۔