• English News
  • e-Paper
  • نگراں ٹی وی
پیر, مارچ ۶, ۲۰۲۳
Nigraan
  • .
  • تازہ ترین
  • جموں کشمیر
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل/شوبز
  • صحت و سائنس
  • اداریہ/ مضامین
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Nigraan
  • .
  • تازہ ترین
  • جموں کشمیر
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل/شوبز
  • صحت و سائنس
  • اداریہ/ مضامین
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Nigraan
No Result
View All Result

مقامی اخبارات اور ہماری روش

Nigraan News by Nigraan News
3 منٹ پہلے
Reading Time: 1min read
A A
0
مقامی اخبارات اور ہماری روش اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔ ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ" یہ میری قوم کا اخبار ہے" ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟ اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔ فاضل شفیع فاضل اکنگام انت ناگ

مقامی اخبارات اور ہماری روش اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔ ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ" یہ میری قوم کا اخبار ہے" ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟ اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔ فاضل شفیع فاضل اکنگام انت ناگ

FacebookTwitterWhatsapp

اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔
ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ” یہ میری قوم کا اخبار ہے” ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟
اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ

 

Nigraan News

Nigraan News

متعلقہ خبریں۔

مقامی اخبارات اور ہماری روش اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔ ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ" یہ میری قوم کا اخبار ہے" ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟ اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔ فاضل شفیع فاضل اکنگام انت ناگ

اوور لوڈ

3 منٹ پہلے
سمارٹ سٹی، میٹر اور غریب عوام

سمارٹ سٹی، میٹر اور غریب عوام

3 منٹ پہلے
ابن آدم ۔۔۔(افسانچہ)

ابن آدم ۔۔۔(افسانچہ)

3 منٹ پہلے
سمارٹ سٹی، میٹر اور غریب عوام

والدین اور سکول مالکان دست و گریباں ؟

3 منٹ پہلے
بے روزگاری، غربت و افلاس جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے

بے روزگاری، غربت و افلاس جیسے مسائل کو جنم دیتی ہے

3 منٹ پہلے
مقامی اخبارات اور ہماری روش اخبار چند صفحوں کا مجموعہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسے جام جہاں نما بھی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کے مطالعہ سے ملکی حالات کا پتہ چلتا ہے۔ ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا علم ہوتا ہے۔ اخبارات نے دور دراز کے فاصلوں کو بہت کم کر دیا ہے جس سے دنیا کے انسان ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں اور بین الاقوامی مشکلات و مسائل کا حل تلاش کرنا آسان ہوگیا ہے۔ اخبار حکومت اور عوام کے درمیان رابطہ کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ دنیا کی تمام قومی اخبارات کا استعمال کرتی ہیں۔ اخبارات مختلف زبانوں میں شائع ہوتے ہیں جیسے انگریزی، اردو ،ہندی ،مراٹھی وغیرہ وغیرہ۔ ہندوستان کے ہر ایک ریاست میں روزانہ اخبارات شائع ہوتے ہیں اور غور و فکر کی بات یہ ہے کہ سب سے کم پڑھنے والا اخبار اردو زبان کا ہے، جسے اردو پڑھنے اور جاننے والے بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ہر مسلمان گھر میں دوسری زبان کا اخبار پڑھنے والا مل جائے گا لیکن ہر مسلمان گھر میں اردو پڑھنے والا نہیں ملے گا جس کی وجہ ہماری اردو زبان سے دوری ہے۔ اردو اخبار ہو یا اردو زبان، اس کی ترویج و ترقی اس کے پڑھنے والے پر منحصر ہے۔ اردو مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا استعمال نہیں کرتا ہے یہ عام بات ہے مگر غیر مسلم بھی اردو سے مناسبت رکھتے ہیں جو اردو کا استعمال کرنا بہت اچھے سے جانتے ہیں لیکن اسے شاذ کہا جائے گا۔ ہر زبان کا تعلق اس زبان کے قوم سے زیادہ وابستہ ہوا کرتی ہے۔ اردو اخبارات کی بات ہو یا پھر اردو زبان کی بات ہو، اگر پڑھنے والا اس کی فکر کرتا ہے یہ میری قوم کا اخبار ہے تو وہ اخبار ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔ ہمارے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمیں اردو زبان کی قیمت سمجھنی ہوگی کیونکہ اس اردو اخبار کی قیمت ہم مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ اردو زبان میں مسلمانوں کی ایک پہچان ہے اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے بقول داغ: اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر قوم اپنی زبان کے اخبار کو خریدتی و پڑھتی ہے لیکن ایک مسلم قوم ہے جو نہ اردو پڑھتی ہے اور نہ پڑھنا جانتی ہے اور نہ ہی اردو اخبار خریدنا جانتی ہے۔ اپنی قوم کے اخبار سے محبت کی ایک مثال مشہور عالم مولانا عبد الکریم پاریکھ اپنےایک واقعہ میں بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر میں صفائی کرنے والی ایک ملازمہ تھی جو ایک دلت تھی۔ ایک دن وہ دلت سماج کا تازہ اخبار لے کر آئی۔ میں نے اس ملازمہ سے پوچھا ہے کہ کیا تم دلت سماج کا تازہ اخبار پڑھنا جانتی ہو؟ اس ملازمہ نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تمہیں اخبار کیوں خرید رہی ہو؟ اس دلت ملازمہ کا جواب ہر قوم کے لئے ایک نصیحت اور عبرت ہے۔ اس نے اپنے مالک سے کہا کہ میں یہ اخبار اس ل خریدتی ہوں کیونکہ" یہ میری قوم کا اخبار ہے" ۔ اس کا جواب لائق رشک ہے۔ اپنی قوم و فرقہ کے اخبار کی ترقی کیلئے اتنا خیال جبکہ وہ ملازمہ اخبار پڑھنا تک نہیں جانتی تھی بلکہ اس کا اخبار خریدنے کا محض مقصد یہ تھا کہ اس کے قوم کے اخبار کی اشاعت میں اضافہ ہو سکے۔ یہ بات ایک ان پڑھ دلت ملازمہ کی ہے۔ کیا ہماری تعلیم یافتہ قوم ایسا نہیں کر سکتی؟ اس کے برعکس جب ہم اپنے اخبار کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر قوم کے اردو اخبارات و رسائل کو خریدنا یا پڑھنا تو دور اس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ ہمیں نہ قوم سے محبت ہے اور نہ ہی اردو زبان سے دلی لگاؤ ہے اور نہ ہی محبت رکھنا چاہتے ہیں، جس کی مثال ہماری آنکھوں کے سامنے اخبارات کی خریدوفروخت ہے۔ اگر ہم بات اپنے جموں کشمیر کی کریں تو یہاں بھی بے شمار اردو اخبارات کی اشاعت تو ہوتی ہے لیکن ان کو پڑھنے والے اور خریدنے والوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں محض چند سال پہلے ہزاروں کی تعداد میں اردو اخبار خریدے جاتے تھے، اب ان کی گنتی سینکڑوں میں ہے۔ اردو اخبار ہماری پہچان ہے اور اس پہچان کو برقرار رکھنا ہم سب کا فرض بنتا ہے۔ غور طلب بات اس اخبار کی قیمت ہے جو کہ محض دو سے پانچ روپیہ ہے۔ اس مہنگائی کے دور میں جہاں بچے کی ایک چوکلیٹ بیس روپے کی آتی ہے مگر اخبار کی قیمت وہی دو سے پانچ روپیہ بہتب سالوں سے برقرار ہے اور ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ کیا ہم اردو زبان کی ترقی کیلئے روزانہ تین یا پانچ روپیہ خرچ نہیں کر سکتے؟ جو کہ مہینے میں زیادہ سے زیادہ ساٹھ ستر روپے بنتے ہیں۔ اگر ہم قومی و فلاحی کام نہیں کر سکتے تو کم از کم قومی ترقی و فلاحی کاموں کا حصہ تو بن سکتے ہیں اور یہ حصہ بننا بھی ایک ثواب کا کام ہے۔ جموں کشمیر میں رہنے والے ہر ایک مسلمان فرد سے مودبانہ التماس ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں اردو اخبار ضرور خریدیں تاکہ اردو اخبار کی ترویج و اشاعت میں اضافہ ہو۔ اپنی کمائی کا ایک چھوٹا سا حصہ اردو اخبار کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لئے خرچ کرنے کی عادت بنائیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی سمجھیں اور قوم کی مدد بھی۔ ہمیں اعادہ کر لینا چاہیے کہ روزانہ اردو اخبار خرید کر لانے کی ایک نہ ختم ہونے والی عادت ڈال کر اپنی اردو زبان اور اخبار کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن کر اپنا فرض ادا کریں۔ فاضل شفیع فاضل اکنگام انت ناگ

طلسمی کانگڑی ۔۔ ایک افسانوی کہانی‎‎

3 منٹ پہلے
ابن آدم ۔۔۔(افسانچہ)

ارادہ ۔۔(افسانچہ)

3 منٹ پہلے
یہاں ہر گھر میں نل ہے،مگر پانی نہیں

اتراکھنڈ کے دیہی علاقوں کا حال

3 منٹ پہلے
سمارٹ سٹی، میٹر اور غریب عوام

آئو اسکول چلیں ہم

3 منٹ پہلے
سمارٹ سٹی، میٹر اور غریب عوام

راشی افسروں و اہلکاروں کیخلاف کارروائی

3 منٹ پہلے
Load More

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

  • English News
  • e-Paper
  • نگراں ٹی وی
4th floor firdous shah bulding Abi guzar Srinagar-190001 +911943566963,9419001837,6005481804 RNI:- JKURD/2007/22206 Email:[email protected]

© Designed by GITS - Copyright Daily Nigraan.

No Result
View All Result
  • .
  • تازہ ترین
  • جموں کشمیر
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • کھیل/شوبز
  • صحت و سائنس
  • اداریہ/ مضامین
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Copyright Daily Nigraan.