تحریر:-ساکشی ورما
خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد ملک اور دنیا کی تمام خواتین کو عزت دینا اورانہیں بااختیار بنانے کے بارے میں بیدار کرنا ہے۔ اس کا مقصد خواتین کو معاشرے میں مساوی حقوق دلانا اور انہیں ان کے حقوق سے روشناس کرانا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا ہے یا یہ محض ایک تقریبات بن کر رہ گیا ہے؟ دنیا بھر میں خواتین پر تشدد کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ آج بھی یہ اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ خواتین پر تشدد روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مرد اور عورت برابر ہیں۔ اس لیے انہیں مساوی حقوق اور مواقع فراہم کیے جائیں۔ لیکن اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معاملہ بالکل مختلف نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں خواتین پر تشدد صفر ہو۔ ترقی یافتہ ملک ہو یا غریب اور پسماندہ ملک، ہر جگہ خواتین جسمانی یا ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اگر ہم عالمی اعدادوشمار کی بات کریں تو 35 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی وقت اپنے شوہر یا غیر مرد کے ذریعے جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ روزانہ 137 خواتین ان کے خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ سال 2019-20 میں ہر 5 میں سے ایک خاتون کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی گئی ہے۔
اگر ہم بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار بھی خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کی وضاحت کرتے ہیں۔ ان جرائم میں عصمت دری، گھریلو تشدد، حملہ، جہیز، تیزاب گردی، اغوا اور سائبر کرائم وغیرہ نمایاں ہیں۔ این سی آر بی یعنی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی انڈیا میں جرائم 2019 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2018 کے مقابلے 2019 میں خواتین کے خلاف جرائم میں 7.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جہاں 2018 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 3,78,236 کیسز درج کیے گئے، وہیں 2019 میں یہ بڑھ کر 4,05,861 ہو گئے۔ اگرچہ پچھلے کچھ سالوں میں عصمت دری کے واقعات میں کچھ کمی آئی ہے لیکن گھریلو تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔خاص طور پر کورونا وبا کے بعد لاک ڈاؤن کے دوران۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات شہری علاقوں میں درج کیے گئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ گھریلو تشدد دیہی علاقوں میں ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ چونکہ دیہی علاقوں کی خواتین شہروں کے مقابلے میں اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہیں، اسی لیے دیہی علاقوں میں ایسے کیسز کم درج ہوتے ہیں۔جموں و کشمیر جسے زمین پر جنت کہا جاتا ہے، میں بھی خواتین کے خلاف تشدد کے بہت سارے کیس درج ہیں۔ کچھ دن پہلے اس مرکز کے زیر انتظام علاقے کے کٹھوعہ ضلع میں گھریلو تشدد کا ایک دل دہلا دینے والا معاملہ سامنے آیا تھا۔ یہ واقعہ کٹھوعہ ضلع کی بلاور تحصیل کے دھرلتا گاؤں کا ہے۔ جہاں ایک 28 سالہ خاتون آشا دیوی کو اس کے شوہر موہن لال نے کلہاڑی کے وار کر کے قتل کر دیا۔ آشا دیوی کی دو بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر 4 سال ہے جبکہ چھوٹی بیٹی کی عمر صرف ڈیڑھ سال ہے۔مقتول آشا کے پیٹ میں آٹھ ماہ کا تیسرا بچہ پروان چڑھ رہا تھا۔
واقعہ اس وقت سامنے آیا جب موہن لال کی بیوی صحن میں بیٹھی برتن صاف کر رہی تھی کہ اس کے شوہر نے پیچھے سے کلہاڑی سے اس کے سر پر وار کیا۔ جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئی۔ یہ صرف ایک نہیں بلکہ تین قتل تھے۔ موہن لال نے نہ صرف اپنی بیوی کو قتل کیا تھا بلکہ اس کے پیدا ہونے والے بچے اور میاں بیوی کے رشتے کو بھی مار ڈالا تھا۔ موت کے بعد گھر والے اتنے غصے میں آگئے کہ انہوں نے آشا دیوی کی لاش کو موہن لال کے گھر کے صحن میں رکھ کر اس کا آخری رسوم کیا اور اس کے گھر کو بھی آگ لگا دی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ موہن لال خود ایک پولیس اہلکار ہے۔ جس کی ڈیوٹی کٹھوعہ پولیس لائن میں تھی اور وہ 3 دن کی چھٹی لے کر گھر آیا تھا۔ جہاں اس نے یہ سارا واقعہ کیا۔جنت عرضی پر یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے جہاں خواتین کے خلاف کیسز منظر عام پر آئے ہوں۔ بلکہ خواتین کو مارنے پیٹنے اور طلاق دینے جیسے تشدد کے واقعات بھی منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ جموں کے پونچھ کی رہنے والی 40 سالہ کیلاش دیوی کو اس کے شوہر پرشوتم کمار نے شراب کے نشے میں طلاق دے دی تھی۔ پرشوتم نہ صرف نشے کا عادی تھا بلکہ چھوٹی چھوٹی بات پر بھی اپنی بیوی سے ہر وقت لڑائی جھگڑا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے کیلاش ذہنی طور پر مکمل طور پر پریشان تھی۔ اگرچہ کئی بار اس سے اس معاملے کو سلجھانے کی کوششیں بھی کیں لیکن جب کوئی حل نہ نکلا تو وہ اپنے والدین کے گھر واپس چلی گئی۔
تاہم کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف خود کو تشدد سے نجات دلائی ہے بلکہ دوسری خواتین کے لیے بھی تحریک کا ذریعہ بنی ہیں۔ جموں و کشمیر کے جموں ڈویژن کے بن تالاب کی رہنے والی مبین فاطمہ اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ جنہوں نے حال ہی میں جموں کشمیر سول سروس کا امتحان پاس کیا ہے۔ لیکن ان کی زندگی اتنی آسان نہیں تھی۔ ان کی شادی صرف 20 سال کی عمر میں ہو جاتی ہے۔ ابھی گریجویشن جاری ہے کہ وہ ایک بچی کی ماں بھی بن گئی۔ لیکن شادی کے دو سال بعد ہی ان کا طلاق ہو گیا۔ مبین کا کہنا ہے کہ طلاق کے بعد مجھے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں ذہنی طور پر بہت پریشان تھی کیونکہ میری ایک 4 سال کی لڑکی بھی ہے۔ لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری، طلاق کے بعد دوبارہ تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد جموں و کشمیر سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہو گئی۔
مبین فاطمہ کی زندگی اور جدوجہد سے یہ واضح ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے خواتین کو خود بااختیار، تعلیم یافتہ اور آگاہ ہونا ضروری ہے۔اگر ہم قومی سطح پر بات کریں تو حکومت بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ کی بات کرتی ہے۔ لیکن حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ بیٹیوں کی حفاظت کے لیے بھی سخت قوانین بنائے جائیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا۔ اگر ہم کچھ اہم قوانین کی بات کریں تو آئی پی سی کی دفعہ 376 عصمت دری اس کے تحت ایک بہت ہی گھناؤنا جرم ہے۔ جہیز کی روک تھام کا ایکٹ 1960 اور 1986 گھریلو تشدد سے خواتین کا تحفظ ایکٹ 2005 ہے۔ لیکن پھر بھی خواتین کے خلاف جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں کے نتیجے میں کم از کم 155 ممالک گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے قوانین پاس کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 140 ممالک نے کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق قوانین بنائے ہیں۔ لیکن ان قوانین کے علاوہ خواتین کی آگاہی بھی گھریلو تشدد کی روک تھام میں کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ خواتین کو بھی اپنے حقوق کو پہچاننا اور سمجھنا ہوگا۔ تب ہی وہ تشدد کا سب سے کم شکار ہو گی۔
ساکشی ورما(جموں)
رابطہ: 9350461877