تحریر:-قیصر محمود عراقی
مہما نوں کے آنے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا اور وہ آج بھی ہمیشہ کی طرح دیوار پر لگے شیشے میں خود کو ہر زاویے سے دیکھ رہی تھی ۔ وہ کبھی آئینے کے قریب جا تی تو کبھی دور ، کبھی بال کھولتی تھی تو کبھی باندھتی ، کبھی مسکراتی تو کبھی ایک دم سنجیدہ ہو جا تی ۔ یہ سب کر تے ہو ئے وہ سوچ رہی تھی کہ وہ واقعی بہت عام سی لڑکی ہے ۔ کاش اللہ تعالیٰ مجھے بھی تھوڑا خوبصورت بنایا ہو تا ؟ یہ سوچتے ہو ئے نہ جا نے کتنے آنسو اس کی آنکھو ں سے نکل کر زمین میں جذب ہو گئے تھے ۔ آج بھی تیار ہو تے ہو ئے وہ سوچ رہی تھی کہ آخر کب تک ! ۔
اماں کے چہرے پر آج بھی ہمیشہ کی طرح پریشانی اور غصے کے ملے جلے تاثرات تھے ۔ اماں کا بھی کیا قصور ، قصور تو میرا ہے ، اگر میں بھی خوبصورت ہو تی تو آج یہ سب نہ ہو تا ۔ مہمانوں کے سامنے چائے کی ٹرے رکھتے ہی اس کے آگے اُن سوالات کی بر سات کر دی جا تی ہے جس کے جوابات وہ ہمیشہ سے ہی بڑی روانی کے ساتھ دیتی آئی تھی ۔ لیکن افسوس پھر بھی پا س نہیں ہو تی تھی ۔رات گئے فو ن کی گھنٹی بجی ،اما ں کے چہر ے پر ایک رنگ آتا ، دیکھکر وہ سمجھ گئی کہ لڑکے والو ںنے منع کرد یا ہے۔وہ آج بھی ریجیکٹ کر دی گئی تھی صرف اس لئے کہ وہ ایک عام شکل و صورت کی گھر داری میں ما ہر پڑھی لکھی لڑکی تھی ، ہاں مگر افسوس وہ خوبصورت نہیں تھی ، آج بھی اسے اوراماںکو رات بھر تکیہ بھگو نا تھا ۔
یہ وہ کہا نی ہے جو ہمیںاپنے خود ساختہ تعلیم یا فتہ معا شرے کے ہر گھر میںنظر آتی ہے۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی کلاس سے ہو ، اگر آپ بیٹی والے ہیں تو آپ کو بھی اس کہانی کا کر دار بننا پڑے گا ۔ کہتے ہیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہو تی ہے لیکن در حقیقت صرف اپنی بیٹی ہی اپنی ہو تی ہے ۔ ہمارے معاشرے کی یہی تو روایت ہے کہ اپنی بیٹی جان سے پیاری اور دوسرے کی بیٹی کی تو جان ہی لے لو۔ آپ کسی کی بیٹی میں دس دس خامیاں نکالے اور بد لے میں اس بدی کا بد لہ نیکی تصور کر یں ، یہ سرا سر بے وقوفی ہے ۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ۔ ہم جس معاشرے اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں وہاں یہی روایت ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے بیٹیوں کو اپنے گھر کا کر دینا چاہئے ، کیونکہ ان کا اصل گھر سسرال ہے ۔ یہی وجہہ ہے کہ جب بیٹیاں ماں باپ کے کندھوں کے برابر آنے لگتی ہیںتو ماں باپ کو انھیں ان کے گھر کا کر نے کی فکر لگ جا تی ہے ، اور یہیں سے پھر لڑکیوں کے لئے آغاز ہو تا ہے ایک جنگ کا ، خود سے خود کی جنگ کا ۔
کہتے ہیں عورت ہر طرح کی تکلیف برداشت کر لیتی ہے لیکن ذلت نہیں ، اور کرے بھی کیوں ، جب اللہ نے اسے اتنی عزت دی ہے کہ اسے ماں کا درجہ دیا اور اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی تو ہم کیوں اس کی عزت نفس مجروح کر نے اور خاک میں ملا نے پر تُلے ہو ئے ہے ؟ ہم آج کس مذہب کی اقدار لے کر چل رہے ہیں کہ جہاں ماں باپ کو اپنی بیٹی کو اس کے گھر کر نے کے لئے سجاا سنوار کر ہر طرح کی اونچی نیچی سوچ رکھنے والے لوگوں کے آگے پیش کر نا پڑتا ہے ، چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ وہ مہم ہے جس کا حصہ بننا آج کے دور کی ضرورت ہے ، لیکن یہ آنے والے کون سی شیطانی صفات کے مالک ہو تے ہیں ، ان کی انسانیت ، شرافت اور غیرت اُس وقت کہاں چلی جا تی ہے جب یہ لڑکی کے گھر آنے سے قبل یا بعد میں اس کے والدین سے الٹے سیدھے سوالات پوچھتے ہیں ، لڑکی گوری ہے یا کالی ؟ چھوٹی ہے یا لمبی ؟ موٹی ہے یا پتلی ؟ لڑکیوں کو گھر آنے سے پہلے ہی اس قدر اذیت کا شکار کر دیا جا تا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے آنے میں عار محسوس کر تی ہیں ، گھبراتی ہیں ، کانپتی ہیں ، لیکن ان سب باتوں سے لڑکے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ آتے ہیں ، کھا تے ہیں ، گھورتے ہیں اور چلے جا تے ہیں اور بعض اوقات تو جواب دینا بھی گوارا نہیں کر تے اور یہاں والدین اور لڑکی آس لگا ئے بیٹھے ہو تے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے میں بیٹی رحمت کے بجا ئے زحمت اور نا قابل بر داشت بوجھ بن چکی ہے ۔ خصوصاً غریب گھروں میں پیدا ہو نے والی بیٹیوں کے والدین تمام عمر اس بوجھ تلے دب کر سسکیاں لیتے گذار دیتے دہیں ، بیٹی کو با عزت رخصت کر نے کے لئے ایک باپ ، بھائی اور ماں کو کن صدمات سے گزر نا پڑتا ہے یہ اب ننگی حقیقت ہے ۔ صدیوں ہندو معاشرے میں رہنے کی وجہ سے شادی بیاہ میں ہندو انہ رسمیں اپنی جڑیں اتنی گہری کر چکی ہیں کہ غریب ماں باپ کی بیٹی کے ارمان فرسودہ رسم و رواج کے تندور میں جھونکے جا رہے ہیں ، جس کی ایک جھلک ان رواجوں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ لا کھوں کا جہیز، کھا نے کا خرچ، رسم بارات سے پہلے مہندی کی رسم کا کھانا ، ساس ، سسر، چچا ، چچی کے لباس ، نندوں ، جٹھا نیوں کے جوڑے اور کئی قسم کے غیر ضروری اخراجات غریب ما ں باپ کی کمر توڑ نے کے لئے کافی ہے ۔ سیدہ فاطمہ ؓ کی شادی کی ہم مثال تو بہت دیتے ہیں لیکن ہندوانہ رسم و رواج کی زنجیریں اسلامی روایات کے راستے روکے ہو ئے ہیں ۔ یہ تو ہمارے رسم و رواج کی ایک جھلک ہے ، اب ایک غریب گھر میں جنم لینے والی بیٹی کے سلگتے مسائل کی جھلک بھی دیکھتے چلیں ۔
غریب لوگ اپنی بیٹیوں کا نام معزز و پاکیزہ اسلامی خواتین کے نام پر اس لئے رکھتے ہیں کہ ان پاکیزہ ہستیوں کے نا موں کی تقدیس کی بر کتیں ان معصوم کلیوں میں بھی اثر دکھا ئے ۔ اس لئے بیٹیوں کے نام فاطمہ ، مریم، زینب، کلثوم ، عائشہ ، ہاجرہ ، خدیجہ، رقیہ، سلمیٰ رکھتے ہیں اور اپنے طور پر مطمئین ہو جا تے ہیں کہ ایک حدیث کی روشنی میں بچوں کے نام رکھنے کا ثواب حاصل کر لیا ہے ، مگر اس بے رحم اور ظالم معاشرے میں غریب کی بیٹی کے ارمان تو بچپن میں ہی کُچلے جا تے ہیں ، جب وہ اپنے ارد گرد امیروں کے بچوں کو حاصل سہولیات ، مراعات اور تحفظ کے مناظر دیکھتی ہے ۔ وہ یہ بھی نہیں جان پاتی کہ اس کا بچپن اور جوانی کب شروع ہوا اور کہاں ختم ہو ئے ۔ اس نے تو مسائل کی دلدل میں جنم لیا اور مسائل کے جہنم میں جلتے کئی اور بیٹیوں کو جنم دے کر اس جہنم کا ایندھن بن کر خود کو موت کی آغوش میں چلی جا تی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اکثر اوقات ایک لطیفہ میری نظر سے گذرتا ہے کہ خود کا بیٹا چاہے بھوسی کا ٹکڑا ہو لیکن بہو چاند کا ٹکرا چاہئے ۔ کہتے ہیں کہ لڑکے کی صرف ملازمت ، پیسہ اور گھر دیکھا جا تا ہے ، اسکی شکل و صورت نہیں ۔ تو پھر کوئی یہ بھی بتا دے کہ ان لڑکیوں کا کیا قصور ہے ؟ ان کا رنگ ، صحت اور صورت سب کچھ کیوں دیکھا جاتاہے ؟ ان کی سیرت ، گھر داری، سلیقہ اور اخلاق کیوں نہیں دیکھا جا تا ؟ کیوں ہمارے معاشرے میں ہر معاملے میں عورت کو مرد سے کمتر اور پیچھے رکھا جا تا ہے ؟ اس میں سارا قصور ہماری سوچ کا ہے ، ہم نے اپنے ذہنوں میں یہ سوچ فٹ کر لی ہے کہ عورت برداشت کر تی ہے لہذا اسے دبائو، ہماری اسی سوچ اور عمل نے لڑکیوں سے ان کی زندگی کا اہم فیصلہ کر نے کا حق چھین لیا ہے ۔ لڑکے ہزار نخرے دکھائیں اور لڑکیاں ریجیکٹ کر تے پھر یں لیکن لڑکیوں کے پاس کئی لوگوں کے آگے ریجکٹ ہو نے کے بعد یہ آپشن ہی نہیں رہتا کہ وہ نہ کر سکیں ۔ لڑکیاں اپنے ماں باپ کی پریشانیوں سے اور خود سے جنگ لڑتے لڑتے اس قدرتھک جا تی ہیں کہ بالآخر اپنی پسندکو ترجیح دے دیتی ہیں ۔
میں نہیں جانتا کہ ہمارے یہاں یہ گھر گھر جا کر ، کھاپی کر اور تنقید کر کے گھر کی عزت لا نے کا رواج کہاں سے آیا ہے ، لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس طرز عمل کو فوری طور پر درست کر نے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہماری سوچ تبدیل ہو گی۔ اگر لڑکے والے لڑکی کے گھر مس یونیورس تلاش کر نے کے بجا ئے بہو تلاش کر نے کی نیت سے جائیں اور یہ سوچ لیں کہ اگر آج وہ کسی کی بیٹی پر تنقید کر ینگے تو کل کو ان کے اپنے گھر کی بیٹی بھی اس چیز کا نشانہ بن سکتی ہے ۔ تو مجھے یقین ہے کہ یہ سوچ ان کو اتنا اونچا تو کر ہی دے گی کہ وہ کسی بھی لڑکی کو اس کے گہرے رنگ، عام صورت اور مو ٹا پے کی بنیاد پر مسترد کر نے سے پہلے دس بار سوچینگے ۔ خوبصورتی ہی سب کچھ نہیں ہو تی ، اصل میں انسان کو اچھے اخلاق ، کردار اور سیرت کی ضرورت ہو تی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب خدا حسن دیتا ہے تو نزاکت آہی جا تی ہے ، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جب خدا حسن دیتا ہے تو غرور بھی آہی جا تا ہے اور یہ بات سب جا نتے ہیں کہ غرور کا انجام اچھا نہیں ہو تا۔ تو پھر ہم کیوں اپنی بے وقوفیوں میں شادی جیسے اہم فریضے اور فیصلے کا انجام اچھا کر نے کے بجا ئے بُرا کر نے پر تلے ہیں ؟ ہمیں اپنی سوچ کی صفائی کی ضرورت ہے ۔ ساتھ ہی اس معاملے میں لڑکیوں کو بھی چاہئے کہ وہ خود کو کسی سے بھی کمتر نہ سمجھیں اور لوگوں کی فضول باتوں کو دل سے لگا کر بیٹھنے کے بجائے خود کو حوصلہ دیتی رہیں اس کے علاوہ ماں باپ کو بھی شادی کے معاملے میں دیر سویر اور بار بار ریجیکٹ ہو نے پر اپنی بیٹیوں یا ان کے نصیب کو قصور وار نہیں ٹھہرا نا چاہئے ۔ کیونکہ جوڑ تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کا بنایا ہے ، بس دیر سویر سے ملنا نصیب ہے ۔
قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ ،کمرہٹی، کولکاتا، ۵۸
موبائل :6291697668