تحریر:-ریاض فردوسی۔
یا تم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر اُن لوگوں جیسے حالات نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے،اُن کو تنگ دستی اور تکلیف پہنچی اور وہ بری طرح ہلائے گئے یہاں تک کہ رسول بھی اور وہ لوگ جو اُن کے ساتھ ایمان لائے کہہ اُٹھے اللہ تعالیٰ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہی ہے(سورہ البقرہ۔آیت۔214۔پارہ۔2)
ایک روایت کے مطابق یہ آیت غزوئہ احزاب کے متعلق نازل ہوئی جہاں مسلمانوں کو سردی اور بھوک وغیرہ کی سخت تکلیفیں پہنچی تھیں(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ:2/215 /27، الجزء الثالث)
حضرت خَبّاب بن ارت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر مبارک سے تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے،ہم نے حضور اقدس ﷺسے عرض کی کہ یارسول اللہ! ﷺ ہمارے لیے کیوں دعا نہیں فرماتے؟ ہماری کیوں مدد نہیں کرتے؟
آپ ﷺارشادفرمایا: تم سے پہلے لوگ گرفتار کیے جاتے تھے، زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے تھے،آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کرڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے لیکن ان میں سے کوئی مصیبت انہیں ان کے دین سے روک نہ سکتی تھی (صحیح البخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، 503/2،الحدیث:3612)
سبق آمیز واقعہ!مکہ میں مصعبؓ ابن عمیرسے زیادہ کوئی حسین،خوش پوشاک اور پروردہ نعمت انسان نہیں تھا۔اللہ نے حسن ظاہری کے ساتھ ساتھ آئینہ دل کو بھی لطیف اور شفاف بنایا تھا۔آپ ﷺ کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر لیا اور ارقم ابن ابی ارقم رضی اللہ عنہ کے مکان میں چھپ کر عبادت کرنے لگے۔ایک روز آپ کے رشتے دار عثمان بن طلحہ(بعد میں یہ بھی مسلمان ہوئے) نے نماز ادا کرتے دیکھ لیا اور ان کی والدہ اور رشتے داروں کو خبر کر دی۔جو بڑے بھائی(بعد میں انہوں نے بھی اسلام قبول کر لیا) سیدنامصعبؓ کو بہت چاہتے تھے،صرف سیدنامصعبؓ کے قبول اسلام میں ان کی محبت نفرت میں تبدیل ہوگئی،مسلسل بحث وتکرار کر کے اسلام سے منحرف ہونے کے لئے کہنے لگے۔سیدنا مصعب ؓاپنے دو معصوم بچوں سے بہت پیار کرتے تھے،لیکن سیدنا مصعبؓ کے قبول اسلام سے قبل وفادار اور وفا شعار بی بی نے بچوں کو بدتمیزی کے ساتھ ان کے ہاتھوں سے چھین لیا،صرف اس لئے کہ تم نے اللہ کو ایک کیسے مانا،محمد ﷺ کی غلامی کیوں قبول کی؟جانثار محمد ﷺ کو توحید اور رسالت پر ایمان لانے کی سزا میں،بہت سے خداؤں پر ایمان رکھنے والوں نے قید تنہائی کا فیصلہ صادر کیا۔ماں انسانی شکل میں محبت اور ایثار کی پہچان،اللہ اور رسول ﷺ کے بعد اس کا مقام،اس کی محبت بے لوث،جس کی محبت میں شک کرنا بھی گناہ ہے۔جس کی گود دنیا میں سب سے اچھی نیند کی دوا ہے۔اس ماں نے جو سیدنا مصعبؓ کو نازوں سے پالتی تھی،جس کی گود میں سر رکھ سیدنا مصعبؓ اپنی بی بی اور بھائی کے ظلم و ستم کے بعد پناہ لینے آئے تھے،غم ہلکا کرنے آئے تھے،رونے آئے تھے،اسی ماں نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں بنا کپڑوں کے سیدنا مصعبؓ کو گھر سے دھکے دے کر،ننگا کر کے نکال دیا،جو مصعبؓ مہنگے سے مہنگا لباس پہنتے تھے،چھوٹی بہن سے مانگ کر ایک ٹوکری سے شرم گاہ کو ڈھک کر،دنیا کی ذلالت اور شرمندگی برداشت کر کے گھر سے باہر نکل گئے۔اس کے بعدبھی ان کے خاندان والوں نے ان کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، انہیںکال کوٹھری میں قید کردیا۔ روزانہ لعن طعن اور مار پیٹ کی جاتی۔ آپؓ کو رسیوں سے جکڑ کرسخت قید میں ڈال دیا گیاتھا۔بہت ہی سختی اوربے دردی سے آپ کو باندھا گیا تھا۔روز ایک ہی بات کی تکرار کی جاتی کہ محمد ﷺ کے دین کو چھوڑ دو۔اسلام سے ہٹ جاؤ۔لیکن مصعب ؓثابت قدم رہے۔حضرت مصعبؓ بن عمیر حبشہ کی ہجرت میں بھی شامل رہے۔ جنگ احد میں علمبردار تھے۔جنگ میں بشری تقاضے کے سبب سے جب فتح و شکست کا پانسہ پلٹ دیا اور فاتح مسلمان ناگہانی طور سے مغلوب ہوکر منتشر ہوگئے تو اس وقت بھی یہ علمبردارِ اسلام اکیلا اور تنہا مشرکین کے نرغہ میں ثابت قدم رہا۔مشرکین کے ظالم شہسوار ابن قمئیہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا، جس سے داہنا ہاتھ شہید ہوگیا،لیکن عاشق رسول ﷺ نے فوراََ بائیں ہاتھ میں علم کو پکڑلیا،اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی: ترجمہ! اور محمد صرف رسول ہیں، ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گذر چکے ہیںﷺ۔ابن قمئیہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تھا،لیکن اس دفعہ شہیدان محبت کے دونوں بازوؤں نے حلقہ کرکے علمِ اسلام کو سینہ سے چمٹالیا،جیسے ایک ماں اپنے بچے کوچمٹاتی ہے کہ کسی کی نظر نہ لگے،ساری آفات سے میرا بچہ محفوظ رہے،ظالم کفر کے پرستار نے جھنجھلا کر تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ تاک کر مارا کہ اسکی انی ٹوٹ کرآپ ؓکے سینہ میں رہ گئی اوراسلام کا سچا فدائی اسی آیت کا اعادہ کرتے ہوئے شہید ہوگیا،ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی ابو الروم بن عمیر ؓ نے بڑھ کر علم کو سنبھالا اورآخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔
آنحضرت ﷺ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی لاش کے قریب کھڑے ہوئے اوریہ آیت تلاوت فرمائی۔ترجمہ۔مومنین میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے اللہ سے جو کچھ عہد کیا تھا اس کو سچا کر دیکھایا۔پھر لاش سے مخاطب ہوکر فرمایا ”میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین وخوش پوشاک کوئی نہ تھا، لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہارے بال اُلجھے ہوئے ہیں اورجسم پر صرف ایک چادر ہے” پھر ارشاد ہوا بیشک اللہ کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر رہو گے۔ اس کے بعد غازیانِ دین کو حکم ہوا کشتگانِ راہ خدا کی آخری زیارت کرکے سلام بھیجیں اور فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزِ قیامت تک جو کوئی ان پر سلام بھیجے گا وہ اس کا جواب دیں گے۔اس زمانہ میں غربت وافلاس کے باعث شہیدانِ ملت کو کفن تک نصیب نہ ہوا۔حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی لاش پر صرف ایک چادر تھی کہ جس سے سرچھپا یا جاتا تو پاؤں برہنہ ہوجاتے اورپاؤں چھپائے جاتے تو سرکھل جاتے،بالآخر آپ ﷺ کے حکم سے چادر سے چہر ہ چھپایا گیا، پاؤں پراذخر کی گھاس ڈالی گئی، اوران کے بھائی حضرت ابوالروم بن عمیر ؓ نے حضرت عامر بن ربیعہ ؓ اورحضرت سویط بن سعد ؓ کی مدد سے سپردِ خاک کیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔(طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث۔صفحہ۔82۔تا۔90۔اسد الغابہ تذکرہ مصعب بن عمیر،سیرت ابن ہشام جلد ۱:139، وخلاصہ الوفاء:61)
راہ ِجنت کے لئے ۔اہم نکات!
1۔ جنت آزمائشوں کو صبرواستقامت اور ڈٹ کر مقابلے کے بغیر نہیں ملے گی۔
2۔ کسی بھی حالت میں حق پر قائم رہنے والے کی اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرماتا ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ بندے کے قریب ہوا کرتی ہے۔
4۔ مشکلات آنا لگاتار پریشانیوں کا نزول ہونا شرط ہے۔
5۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت:2)
6۔ جتنے نبی و رسل اللہ تعالیٰ نے بھیجا ،اور جن نیک اور سعید لوگوں نے ان کے دست حق پرست پر اسلام پر مرمٹنے کی بیعت کی ان معزز لوگوں کو بھی آزمایا گیا (مفہوم آیت۔العنکبوت:3)
7۔ ڈر سے آزمائش (البقرۃ:155)
8۔ فاقوں سے آزمائش (البقرۃ:155)
9۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش(البقرۃ:155)
10۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے زیادہ مصائب وشدائد انبیاء علیہم السلام نازل ہوتے ہیں، پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی دین داری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگروہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت، ورنہ ہلکی ہوتی ہے۔آدمی پر مصائب کاسلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے (یعنی مصائب کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں)(مشکوٰۃ شریف۔136)
11۔صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر، باب الجنۃ تحت بارقۃ السیوف میں درج ہے۔عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا: جان لو! یقینًا جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔
آخر میں!
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویا اب بھی میں(چشمِ تصور سے)نبی اکرم ﷺ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپﷺ ایک نبی کا ذکر فرما رہے ہیں جن کی قوم نے ان کو مارا اور لہو لہان کر دیا تو وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اے رب! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ جانتے نہیں ہیں(کہ میں کون ہوں)
(اخرجہ البخاری فی الصحیح، کتاب: کتاب استتابۃ المرتدّین، باب: إذا عرّض الذّمّی وغیرہ بسبّ النّبیِ ﷺ، 6 / 2539، الرقم: 6530، ومسلم فی الصحیح، کتاب: الجہاد والسیر، باب: غزوۃ احد، 3 / 1417، الرقم: 1792، وابن ماجہ فی السنن، کتاب: الفتن، باب: الصبر علی البلاء، 2 / 1335، الرقم: 4025، واحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 380، الرقم: 3611)