خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق افغان دارالحکومت کابل میں منعقدہ ایک تقریب جنرل آسٹن ملر نے کمانڈر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس سے طویل افغان جنگ کا علامتی اختتام ہوگیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ جنرل آسٹن ملر نے امریکی جنگ کا علامتی اختتام کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جبکہ طالبان ملک بھر میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ امریکا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس فروری کے آخر میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے انخلا پر راضی ہوا تھا۔افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان خانہ جنگی کی جانب جاسکتا ہے اور حالات مزید خراب ہوں گے۔امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن نے بھی ان فوجی رہنماؤں کی توقعات پر پانی پھیر دیا تھا جو افغانستان میں فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے حامی تھے اور رواں برس اپریل میں اعلان کیا کہ 11 ستمبر سے قبل امریکی فوج کا مکمل انخلا ہوگا۔جوبائیڈن نے 9 جولائی کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ میں امریکیوں کی ایک اور نسل کو افغانستان میں جنگ کے لیے نہیں بھیجوں گا۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے لیے 31 اگست کی حتمی تاریخ کا اعلان کرتا ہوں۔انہوں نے کہا تھا کہ امریکی فوج نے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں، جس میں اسامہ بن لادن کو مارنا، القاعدہ کو کمزور کرنا اور امریکا پر مزید حملے ہونے سے روکنا شامل ہے۔جوبائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکیوں کی ایک اور نسل کو ناقابل فتح جنگ میں قربان کرنے کے بجائے افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔وائٹ ہاؤس میں گفتگو کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا تھا کہ افغان فوج کے پاس طالبان کو پیچھے دھکیلنے کی صلاحیت موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم جن مقاصد کے لیے افغانستان گئے تھے وہ مقاصد حاصل کرلیے، ہم افغانستان میں قومی تعمیر کے لیے نہیں گئے تھے اور یہ افغان عوام کا حق اور ذمہ داری ہے کہ وہ خود اپنے مستقبل اور اس بات کا فیصلہ کریں کہ ملک کس طرح چلانا ہے۔جو بائیڈن نے خطے کے ممالک سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ متحارب فریقین کے درمیان ایک جامع سیاسی تصفیہ کرنے میں مدد کریں، افغان حکومت کو طالبان کو پرامن طریقے سے ساتھ رہنے دینے کے لیے ان کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و سلامتی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ وہ طالبان کے ساتھ پرامن رہنے کے طریقہ کار پر کام کرنا ہے کیونکہ پورے ملک کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانستان میں ایک متفقہ حکومت بننے کا امکان بہت کم ہے۔