عراق کے شہر ناصریہ کے ایک ہسپتال میں کووڈ انيس کے مریضوں کے لیے مختص یونٹ میں آگ لگنے سے کم از کم 52 افراد ہلاک ہو گئے ہيں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران ہسپتال میں آگ لگنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔عراق میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی شہر ناصریہ کے ایک ہسپتال میں بارہ جولائی پیر کی رات آگ لگنے کا واقعہ پیش آيا جس میں پچاس سے بھی زیادہ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ حکام نے اب تک 52 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور ان کے مطابق زخمیوں میں سے بعض کی حالت نازک ہے۔ اسی لیے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ اس واقعے سے متعلق سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز شیئر کی گئی ہیں ان میں ناصریہ کے الحسین ہسپتال کی عمارت کو آگ کے شعلوں میں لپٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ عمارت کی چھت کے اوپر سے دھوئیں کے بادل اٹھ رہے ہیں۔ اطلاعات ہيں کہ آگ بھجانے والے عملے نے آگ پر قابو پا لیا ہے۔ آگ کیسے لگی؟ عراقی محکمہ صحت سے وابستہ ایک سینئر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وارڈ میں ایک آکسیجن سلينڈر کا پھٹنا، آگ لگنے کی وجہ بنا۔ اس وارڈ میں تقریباً 70 بستر تھے اور تین ماہ قبل ہی اسے قائم کیا گیا تھا۔ مقامی محکمہ صحت کے ایک ترجمان حیدر الذمیلی کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں جو وارڈ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے مخصوص تھا اس میں بھیانک آگ لگ گئی جس کی وجہ سے اب تک 52 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جبکہ دیگر 22 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا بیشتر متاثرین کی موت آگ سے جھلس جانے کی وجہ سے ہوئی۔ بعض افراد عمارت کے کسی کونے میں اب بھی کہیں پھنسے ہو سکتے ہیں اور اس لیے تلاش جاری ہے۔ کورونا کا علاج کرنے والے ہسپتال میں آتش زدگی، 82 ہلاک عراق اور شام میں امریکی اور اتحادی فورسز پر راکٹ حملے مصر، اردن اور عراق کا علاقائی اتحاد کو مستحکم کرنے کا اعلان عراقی وزارت داخلہ نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ہسپتال کے برابر میں کورونا کے مریضوں کے لیے جو علیحدہ یونٹ کھڑا کیا گیا تھا، وہ آگ سے مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی نے آگ لگنے کے واقعے کے فوری بعد کابینہ کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اس واقعے پر تبادلہ خیال کیا گيا۔ سوشل میڈیا پر آنے والے رد عمل سے عیاں ہے کہ عراقی عوام اس واقعے سے کافی برہم ہيں اور ذمہ دار افسران کے استعفوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہسپتال کے باہر ایک نوجوان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا، ”بدعنوانی میں ملوث عہدیداروں کو آگ لگنے اور بے گناہ مریضوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ آخر میرے والد کی لاش کہاں ہے؟‘‘ ہسپتال میں آگ کا دوسرا بڑا واقعہ عراق ميں ہسپتالوں میں آگ لگنے کا اس برس کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ اس سے قبل اپریل میں دارالحکومت بغداد کے ابن الخطیب ہسپتال میں آگ لگ گئی تھی، جس میں 82 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی ایک آکسیجن ٹینک کے پھٹنے سے آگ لگی تھی۔ عراق میں پھیلی بدعنوانی، پابندیاں اور مدت سے جاری جنگ کی وجہ سے ملک کا نظام صحت بری طرح سے متاثر ہوا ہے اور ایک طرح سے ناکارہ ہو چکا ہے۔ ایک طرف جہاں ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے وہیں کئی بار اس لیے بھی ڈاکٹر دستیاب نہیں ہوتے ہیں کیونکہ خراب صورت حال کے سبب ڈاکٹر دوسرے ممالک میں کام کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ حالیہ کچھ دنوں کے دوران ملک میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس وقت یومیہ تقریباً نو ہزار نئے کیسز درج کیے جا رہے ہیں۔ عراق اس وقت بجلی کے بھی شدید بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے ملک میں آئے دن بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوتے رہتے ہیں۔