جیوتی گوسوامی / پنکی آرمولی
اتراکھنڈ
آزادی کے 75 سال گزر چکے ہیں۔ لیکن پہاڑی علاقوں کے دیہات کے مکین آج بھی ان بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جن کے بغیر زندگی کا تصور بھی ایک ڈراؤنا خواب لگتا ہے۔ اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع کے گڑوڈ بلاک کے گنی گاؤں اور سوراگ ایسے گاؤں ہیں جہاں آج تک لوگوں کو سڑک جیسی سہولیات نہیں مل سکی ہیں۔ گنی گاؤں اور سوراگ کے درمیان تقریباً 10 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ لیکن سڑک کے معاملے میں دونوں کی حالت یکساں ہے۔ سڑک کی سہولیات نہ ہونے سے پریشان گاؤں کی ایک نوعمر کماری چاندنی کہتی ہیں کہ ”جب ہم اسکول جاتے ہیں تو سڑک کی خراب حالت کی وجہ سے ہمیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زیادہ تر سڑکیں کچی ہیں اور یہاں تک کہ جو پکی ہیں وہ بھی بارش کے موسم میں مکمل طور پر ٹوٹ جاتی ہیں۔ ایسے میں ہمیں اسکول آنے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سڑک اچھی ہوتی تو گاڑی میں بھی جا سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ سہولت بھی نہیں ہے اور ہمیں پیدل ہی اسکول جانا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ہمیشہ اسکول پہنچنے میں دیر ہو جاتے ہیں۔ گھر آ کر بھی شام ہوجا تی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بعض اوقات بارش کے دنوں میں اونچی اور نیچی سڑکیں عبور کرکے اسکول جانا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔“
سڑک نہ ہونے کا درد بیان کرتے ہوئے گاؤں کی ایک خاتون رودھالی دیوی کہتی ہیں کہ”جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو ہمیں سڑک بہت یاد آتی ہے کیونکہ بیماری کی صورت میں ہم وقت پر اسپتال نہیں پہنچ پاتے۔ چھوٹی موٹی بیماریوں کا علاج ہم گھر پر کر سکتے ہیں لیکن اگر کوئی بڑا مسئلہ ہو تو موت کا خطرہ ہوتا ہے۔ سڑک اچھی ہوتی تو ایمبولینس بھی گاؤں میں آ سکتی تھی۔ لیکن جب سڑک ہی نہیں تو ایمبولینس کہاں سے آئے گی؟“ گاؤں کی حاملہ خواتین کو بھی سڑک نہ ہونے کی وجہ سے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گنی گاؤں کی حاملہ خاتون لکشمی دیوی کا کہنا ہے کہ ہمیں حمل کے دوران بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اول تو ہمارا گھر بلند و بالا پہاڑوں میں واقع ہے، اوپر سے سڑک کی سہولت موجود نہیں ہے۔ ایسے میں ڈیلیوری کے وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ ریاست کے ہر گاؤں میں ایمبولینس کی سہولت تو موجود ہے، لیکن سڑک کی خرابی کی وجہ سے وہ گاؤں تک نہیں پہنچ سکتی۔ بڑی مشکل سے گاڑی مل بھی جائے تو کچی سڑکوں پر سفر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ ہمیں ایک چھوٹا سا ٹیسٹ کروانے کے لیے بھی تقریباً 25 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ جس میں ہم صبح نوبجے نکلتے ہیں اور شام پانچ بجے واپس گھر پہنچتے ہیں۔ خستہ حال سڑک کی وجہ سے گاؤں میں صرف 2 گاڑیاں آتی ہیں جو صبح جاتی ہیں اور شام کو ہی واپس آتی ہیں۔ سڑک اچھی ہوتی تو یہ سفر آسان ہوتا،اور ہمیں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔گنی گاؤں کے آنند سنگھ کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں سڑک کی بہت زیادہ تکلیف ہے۔ جس کی وجہ سے ہماری زندگی تکلیف دہ ہو گئی ہے۔ کچی سڑکوں پر چلنا بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر بارش کے دنوں میں جب سڑک کی حالت انتہائی خراب ہو جاتی ہے کیونکہ کچی سڑک کی وجہ سے مٹی زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے بارش کے دنوں میں پوری سڑک کیچڑ سے بھر جاتی ہے۔ جس پر پھسلنے کا خطرہ ہے۔ اس دوران کئی حادثات بھی ہوچکے ہیں۔ ایسے وقت میں اسکول جانے والے بچوں کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اکثر بچے بارش کے موسم میں صرف خراب سڑکوں کی وجہ سے اسکول آنا چھوڑ دیتے ہیں۔ پرائمری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے اکثر والدین بارش کے موسم میں انہیں سکول بھیجنا بند کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو اساتذہ بچوں کو پڑھانے آتے ہیں، بعض اوقات ان کی گاڑیاں بھی ٹوٹی ہوئی سڑک کی زد میں آکر درمیان میں ہی رک جاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے انہیں کافی پریشانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب ایک اور رہائشی کشن سنگھ کا کہنا ہے کہ بڑی مشکل سے کچے کی سڑک بنائی گئی ہے لیکن ان سڑکوں پر چلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو یہ اس کے گھر والوں کے لیے سب سے مشکل وقت ہوتا ہے۔ ہمارے گاؤں کے بچے جو 12ویں پاس کرتے ہیں اور جو مالی طور پر مضبوط ہوتے ہیں، وہ باہر شہروں میں پڑھنے جاتے ہیں، لیکن جو بچے معاشی طور پر کمزور ہیں، وہ پھر گھر بیٹھ جاتے ہیں، کیونکہ اگر سڑک بہتر ہوتا تویہاں زیادہ گاڑیاں آتیں۔ جس سے گاؤں ترقی کرتا۔ یہاں کمپیوٹر سنٹر ہوتا، اچھی مارکیٹ ہوتی، گاؤں میں ہی رہ کر بہت سی چیزیں سیکھنے کو مل جاتیں۔ لیکن سڑک کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کی زندگی اور ان کی پڑھائی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔گنی گاؤں کے پردھان نریندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں سڑک کا کام تقریباً 4 سال سے جاری ہے اور آج تک سڑک کوبنایا نہیں جا سکا ہے۔ یہ سڑک پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت بنائی جا رہی ہے۔ الیکشن کے وقت تمام پارٹیوں کے لیڈر آتے ہیں اور گاؤں کی ترقی کی بڑی بڑی باتیں کرکے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ 5 سال تک پھر کبھی کوئی نہیں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی طرف سے کئی بار کوشش کی ہے کہ ہمارے گاؤں کی سڑک اچھی، صاف ستھری، خوبصورت اور پختہ ہو تاکہ گاؤں کی ترقی ہو سکے۔
دوسری جانب سلانی گاؤں کی سرپنچ کماری چمپا آریہ کا کہنا ہے کہ ہم نے سڑک کی تعمیر کے لئے پی ڈبلیو ڈی کے دفتر کو کئی دستاویزات دیے ہیں، لیکن آج تک کوئی کام نہیں ہوا۔ دونوں گاؤں کے سربراہان گاؤں کی سڑکوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں، کیونکہ جب تک سڑکوں کی حالت بہتر نہیں ہوتی گاؤں کی حالت نہیں بدل سکتی ہے۔ (چرخہ فیچرس)