خا لدہ بیگم
پونچھ، جموں
مین کے کل رقبہ کا تقریباََ 71 فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن اس میں 97 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔ دنیا کے پانی کادوفیصد حصہ پہاڑی تودوں میں موجود ہے جس کا نکالنا دشوار ہے۔صرف ایک فیصد پانی پینے کے قابل ہے۔انسانی ترقی کے باعث آئے روز نئے نئے کارخانے وجود میں آرہے ہیں جس کی وجہ سے بھی پانی گندہ ہورہا ہے۔ وزیر اعظم نے سال 2019 میں جل جیون مشن اسکیم کا آغاز کیا تھا جس کے تحت جموں کشمیر کے لئے کثیر رقم واگزار کی گئی اور یہ دعوی کیا گیا تھا کہ اگست 2022 تک ہر گھر میں نل کا پانی پہنچایا جائے گا۔ جموں کشمیر میں اگرچہ پانی کی فراوانی ہے لیکن اس کے باوجود بھی پینے کا پانی لوگوں کو دیہی علاقاجات میں وافر مقدار میں مئیسر نہیں ہو رہا ہے۔ جموں کشمیرکے سرحدی ضلع پونچھ کے دیہی علاقاجات میں اگر چہ برف باری خوب ہوتی ہے اوراس دوران چشموں اور ندی نالوں سے خوب پانی نکلتا ہے۔ جو دریا کی شکل اختیا ر کرلیتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس پانی کو تحفظ کرنے میں ہم ناکام ہیں۔ ضلع پونچھ میں پانی کی فراوانی ہونے کے باوجود کچھ علاقاجات ایسے ہیں جہاں آج بھی لوگوں کو وافر مقدار میں پانی مئیسر نہیں ہے۔ ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں ’ہاڑی‘ کی رہائشی ’وحیدہ کوثر‘ کہتی ہیں ’ہمیں پانی لانے کے لئے گھر سے دور جانا پڑتا ہے۔ اگرچہ ہمارے گھر پر پانی سپلائی کی پائپیں لگی ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمیں پانی مئیسر نہیں ہے۔ ہمارے گھر سے تقریباََ ایک کلومیٹر کی دوری پر اوپر کی جانب پانی کا ایک ٹنک تعمیر تو کیا گیا ہے۔ لیکن پائپیں ٹوٹی ہونے کی وجہ سے ہم تک پانی نہیں پہنچتا ہے۔ ہمیں نہ تو خود کیلئے پانی وقت پر مئیسر آتا ہے نہ ہم اپنے جانوروں کو پانی فراہم کر سکتے ہیں۔ ہم کسان ہیں اور ہم دیہی علاقے میں رہتے ہیں۔جہاں موٹر سے پانی پہنچانے کا بھی ابھی تک کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔“
تحصیل منڈی کے گاؤں بائیلہ کے پہاڑی علاقہ ’کھیتاں‘ میں پانی کا ایک چشمہ ہے جو تقریباََ ۰۰۰۴ سے زائد آبادی کی پیاس بجھانے کا واحد ذریعہ ہے۔ اس حوالے سے گاؤں بائیلہ کے رہائشی محمد دین کہتے ہیں کہ ”بائیلہ گاؤں کے اوپری مقام پرگزشہ کئی سالوں سے اس چشمہ سے پانی نکلتا ہے۔ یہاں تقریباََ بیس سال قبل محکمہ پی ایچ ای کی جانب سے ایک چھوٹی سی ٹنکی نصب کی گئی ہے جس میں پورا پانی جمع نہیں ہو پاتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگوں تک وافر مقدار میں صاف پانی نہیں پہنچ پاتا۔ بجائے اس پانی کو محفوظ کرنے کے محکمہ کی جانب سے ایک نالے کا پانی اس پانی سپلائی میں ملا دیا ہے جو گلی شیخاں کے مقام پر تعمیر شدہ ٹنک میں آکر ملتا ہے۔ جوں ہی بارش شروع ہوتی ہے تو نالے کا پانی گندہ ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹینک کا پورا پانی گندہ ہوجاتا ہے۔اور عوام کو وہی گندہ پانی مجبوراََ استعمال کرنا پڑتا ہے۔جس سے یہاں کے لوگ ان گنت بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔اسی گاؤں کی ایک اور رہائشی عابدہ کوثر کہتی ہیں ’پانی انسان کی زندگی میں انتہائی اہم ہے لیکن ہمیں کئی کلومیٹر دور جاکر پانی لانا پڑتا ہے۔ جس سے ہماری تعلیم پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے‘۔ تحصیل منڈی کے دور دراز علاقہ ڈنوں گام کے رہائشی ماسٹر محمد فرید کہتے ہیں کہ”میرے گھر میں آج تک پانی کا نل نہیں لگا ہے لیکن مجھ سے کرایہ مکمل وصول کیا جاتا ہے۔ یہ گاؤں پہاڑی کے اوپری سطح پر واقع ہے۔ پانی کی سطح سے بہت ذیادہ اونچا ہونے کی وجہ سے اس گاؤں میں چشموں کے پانی کی بھی قلت ہے۔ عوام بالخصوص خواتین کو دور دور سے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے۔سردی کے موسم میں جب برف پڑجاتی ہے تو یہاں کے لوگوں کو مجبوراََ برف کا پانی پگلا کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس علاقہ میں تقریباََ ۴ کلومیٹر کی دوری سے سپلائی کا پانی آتا ہے۔ جو اس علاقے کی عوام کے لئے ناکافی ہے۔ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں اس علاقہ کی عوام کے لئے موٹر کے ذریعے پانی سپلائی کیا جائے تاکہ یہاں کی عوام کو پانی کی قلت کی وجہ سے مزید دشواریوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
محکمہ پی ایچ کی لائن مین ”غلام نبی“ کہتے ہیں کہ دیہی علاقوں میں پانی سپلائی لوگوں تک پہنچانا آسان کام نہیں ہے۔ یہاں سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں ایک لائن کو دیکھنے کے لئے پورا دن لگ جاتا ہے۔ ہم سڑک کی عدم دستیابی کی وجہ سے مشکل حالات سے گزرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم لوگوں تک بہتر طریقہ سے پانی کی سپلائی پہنچا سکیں۔ اس تعلق سے جب ایکس ای این پی ایچ ای سے فون پررابطہ کرنے کی کوشش کی گئی توان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا‘۔ پانی انسانی زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ محکمہ جل شکتی اس طرف خصوصی توجہ دے اور ملازمین کو خصوصی طور پر ذیادہ تعدادا میں دیہی علاقاجات میں تعئینات کیا جائے تا کہ عوام تک بہتر طریقہ سے پانی سپلائی پہنچ سکے۔ (چرخہ فیچرس)