الطاف حسین جنجوعہ
اُمت ِ مسلمہ پوری دُنیا میں کئی قسم کے مسائل ومشکلات کا شکار ہے ۔ماضی میں تحقیق وتخلیق اور ایجادات میں عالم ِ انسانیت کے لئے مشعل ِ راہ رہنے والی یہ قوم آج خود زندگی کے مختلف شعبہ جات میں چیلنجوں سے دو چار ہے ۔ ناخواندگی، اخلاقی اقدار میں گراوٹ ودیگر سماجی مسائل نے ہمیں گھیر رکھا ہے ۔تمام مسلمان ایک ہی ماں حوا کی اولاد ہیں۔ ایک ہی شاخ کے پھول ہیں۔ ایک ہی آسمان کے چاند اور تارے ہیں۔ ایک ہی خدا کو ماننے والے ہیں۔ ایک ہی آقا کونینؐ کے غلام ہیں۔ ایک ہی قبلے کی طرف سر جھکاتے ہیں۔ ایک ہی کعبے کو مانتے ہیں۔ منکر و نکیر کے سوالات کے جواب بھی دیں گے۔ ایک طریقے سے نماز پڑھتے ہیں۔ رنگ ایک جیسا، روپ ایک جیسا، خون ایک جیسا، کھانے پینے کے طریقے اور لباس ایک جیسے، تہذیب و تمدن زبان ایک جیسی ہیں پھر ہم میں یہ مصنوعی اختلافات کیوں؟ ۔باوجود اِس کے کہ مسائل کا بہترین اور ناقابل چیلنج حل قرآن ِ کریم اور احادیث ِ مبارکہ میں موجود ہے ۔ کس وجہ سے ہے، کون کررہا ہے، حل کیا ہے، ایسے سوالات جن کے جواب تلاش کرنا وقت کا تقاضاہے۔ وجوہات کئی ہیں جن میں ایک بڑی وجہ مسلکی اختلافات کو عوامی سطح پر ہوا دینا ہے۔ اسلام کے بنیادی ارکان توحید، نماز، حج، روزہ، زکوۃ میں کوئی اختلاف نہیں۔ قرآن کریم، نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ، سنت ِ نبیؐ اور احادیث ِ مبارکہ پر سب متفقہ ہیں۔ یعنی نے 100میں سے 96فیصد معاملات مشترکہ ہیںاور سبھی اِس پر متفق ہیں۔ صرف 4تا5فیصد فقہی ودیگر اختلافات ہیں جن پر دینی اجتماعات، خطبہ جمعہ اور مساجد میں منعقدہ یومیہ مجالس میں زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں ۔خود کو بالاتراور درست ثابت کرنے کے لئے ممبر ِ رسول ؐکو بھی خوب استعمال کرتے ہیں۔یہ صورتحال بر صغیر ِ ہند میں زیادہ ہے اور جموں وکشمیر اِس کا کچھ زیادہ ہی شکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت مسلمہ کی صفحوں میں اتحاد کی بجائے ہم الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی عمارت تعمیر کرنے میں لگے جس وجہ سے اُمت کو درپیش حقیقی چیلنجوں سے نپٹنے کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی اور نقش ِ راہ نظر نہیں آتی اور ہماری اِس صورتحال کو دیکھ کر غیر مسلم کے ذہنوں میں ایک سوال ہمیشہ رہتا ہے کہ …اصل مسلمان کون ہے؟
ہلال ِ رمضان کو لیکرجموں وکشمیر میں علماء ومفتیان کرائم کے متضاد بیانات سے جس طرح کی اضطرابی کیفیت اُمت مسلمہ میں دیکھی گئی وہ ہم سب کے لئے چشم کُشا ہے۔ اُمت اِس بات کا فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار ہوگئی کہ کیسے درست وغلط میں فرق کیاجائے ،کس کی مانیں یا کس کی نہ مانیں۔ قرآن واحادیث کا سہارا لیکر اپنے اپنے طریقہ سے دلائل دیکر خود کو صحیح ثابت کرنے اور مسلک کو اتحاد ِ ملت پر فوقیت دی گئی جس کا اپنوں غیروں نے بھرپور فائیدہ اُٹھاکر جلتی پر تیل چھڑکنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے در پردہ عزائم کی تکمیل کے لئے بھی کمر کس لی لیکن ماہ ِ رمضان کے مقدس ایام کے صدقے اللہ تبار ک وتعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے صدقے میں ہمیں اِتحاد ِ ملت کی ایک بہترین عملی جھلک دکھائی ۔
پہلا روزہ 23اور24کو تھا، پر علماء ومفتیان کرائم کی مسلکی تقسیم کے تحت متضاد موقف شب ِ قدر اور عید الفطر کب ہوگی کو لیکر پیداشدہ اضطرابی کیفیت کے بیچ 28مارچ2023کو سرینگر میں متحدہ ِ مجلس علماء کا ایک تاریخ ساز اور غیر معمولی اجلاس منعقد ہوا جس میں سبھی مسلکوں کے معروف علماء کرائم اور مفتیان ایک جگہ تھے اور اِس مسئلے کا حل نکالنے پر سیر غوروخوض ہوا۔ کئی گھنٹوں کی مشاورت اور اتفاق رائے سے جموں وکشمیرکے مفتی اعظم ناصر الاسلام کی قیادت میں حل نکالاگیا۔ اس بابرکت اجلاس میں مولانا رحمت اللہ قاسمی مہتمم دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ ، غلام رسول حامی کارروان ِ اسلامی، پروفیسر محمد طیب کاملی،حجت الاسلام مولانا آغا سید الحسن موسوی، ، مولانا فیاض احمد رضوی نائب صدر صوت الاولیا، سید شبیر جیلانی صدر سعادات انٹرنیشنل، سید محمد اسلم اندرابی نائب صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور ، مسرور عباس انصاری صدر اتحام المسلیمین وغیرہ نے شرکت کی جس میں یہ بھی طے پایاکہ آئندہ فیصلے بھی مولوی عمر فاروق میر وعظ کشمیر، مولانا رحمت اللہ قاسمی، غلام رسول حامی، پروفیسر محمد طیب کاملی، مولانا آغا سید الحسن موسوی، غلام محمد بٹ ، مولانا فیاض احمد رضوی ، سید شبیر جیلانی ، سید محمد اسلم اندرابی ، ، مسرور عباس انصاری ، مفتی نذیر احمد جموں وغیرہ سے مشاورت کے بعد لئے جائیں گے۔
23اور24مارچ کو سوشل میڈیا پر ہوئی بحث ومباحثوں کے بعد پیدا ہوئی صورتحال وحالات سے ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہئے کہ اِس سے حاصل کیا ہوا، اِس کا ہمیں فائیدہ کتنا ہوا۔
عوامی حلقوں اور ذی شعور طبقہ نے اس اجلاس کو خو ش آئند قرار دیاہے۔ فقہی ودیگر مسلکی اختلافات اپنی جگہ لیکن مجموعی طور اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لئے ایسے اجلاس وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ درپیش مسائل اور چیلنجوں سے نپٹنے کے لئے باہمی مشاورت سے مشترکہ حکمت عملی طے کر کے اُس کو عملی جامہ پہنایاجائے۔ طرح طرح کے سماجی مسائل ، اخلاقی اقدار کی گراوٹ، نشہ کی وباء ، خواندگی کی کم شرح، دین سے دوری ایسے معاملات ہیں جن پر مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے۔ خطبہ جمعہ میں اِن مسائل کو موضوع بنانے کی ضرورت ہے اور سول سوسائٹی کے تعاون سے اِس پر عملدرآمد کے لئے بھی جامع کوششیں درکار ہیں۔ اِس طرح کے اجلاس کم سے کم ماہانہ بنیادوں پرہونے چاہئے، اس کا دائرہ وسیع کر کے یوٹی، صوبائی اور ضلع سطح پر بھی بین مسلک علماء ومفتیان کرام کے اجلاس ہونے چاہئے۔ فروعی مسائل کو اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔ ممبر ِ رسول سے صرف پیغام اتحاد دیں اور یسے فروعی اور مسلکی امور پر تقاریر وتحریر سے اجتناب برتیں جن سے اختلافات پیدا ہوں، بدگمانیاں ہوں اور ایکدوسرے کے لئے نفرت جنم لے۔ انتشار قوم کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیتا ہے، وہ کمزور ہوجاتی ہے پھر صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ اتحاد زندگی ہے اور انتشار موت!۔ اللہ پاک ماہ ِ رمضان کے صدقے امت مسلمہ کی صفحوں میں اتحاد کے اسباب پیدا کرئے ۔آمین
اْٹھو وگر نہ حشر ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس جموں ہائی کورٹ میںوکیل ہیں
7006541602