فرحان بارہ بنکوی
خالق کائنات نے انسانوں کو وجود بخشا اور ان کو بیش بہا قیمت یعنی ایمان سے نوازا۔ دینِ اسلام نے جہاں انسانوں کو زندگی بسر کرنے اور لوگوں کے ساتھ پیش آنے کے بے شمار طریقے بتائے ہیں، وہیں عبادات کی جانب بھی خوب اور ترجیحی توجہ مبذول کرائی ہے؛ چنانچہ روایت میں ہے کہ: بنی الاسلام علی خمس: شہادۃ ان لا الہ الا اللہ، و اقام الصلوۃ، ایتاء الذکوۃ و الحج و صوم رمضان۔
یعنی مذہب اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اور ان بنیادی پانچ چیزوں میں ماہِ رمضان کے روزے ہیں۔ اور کسی بھی عمارت کی بقا کے لیے بنیاد کا مضبوط ہونا از حد ضروری ہے؛ ورنہ ایمان کا قلعہ ڈھہہ جائے گا۔ ان ماہِ رمضان کے روزوں کو اللہ عز و جل نے مومنین کے اوپر فرض فرمایا ہے؛ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: یٰاَیُّها الَّذِینَ اٰمَنُوا كُتِبَ عَلَیكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِینَ مِن قَبلِكُم لَعَلَّكُم تَتَّقُونَ(سورہ بقرہ: 183)
(ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے؛ تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو)
یہ فرضیتِ صیام صرف مومنین کے لیے نہیں ہے؛ بلکہ امم سابقہ کے لیے بھی روزے فرض تھے اور ان روزوں کا مقصد یہ بیان فرمایا کہ: تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ اور تقویٰ کا مقام یہ بیان کیا گیا ہے کہ: اللہ تک صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
رمضان کے روزوں کا مقصد فقط بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے اور نہ خدائے عز و جل کو اپنے بندوں کا صرف بھوکا پیاسا رہنا مطلوب ہے؛ کیونکہ وہ تو اپنے بندوں پر اتنہائی مہربان ہے؛ اس بنا پر وہ بغیر کسی مقصد کے اپنے بندوں کو تکلیف میں ہرگز نہیں ڈال سکتا۔ در اصل مالک بحر و بر تو اپنے بندوں کو مضبوط اور نفس پر کنٹرول کرنے والا بنانا چاہتا ہے کہ بندہ مجاہدہ کرکے اپنے نفس پر قابو پانے والا ہو جائے اور اپنے نفس کے دام اور شیطانی حربوں میں آنے سے بچ جائے؛ چوں کہ انسانی نفس ہر چیز میں فوری منافع اور نام و نمود کا متمنی ہوتا ہے؛ اسی لیے پروردگارِ عالم نے اس خواہش کے سدِ باب کے کیے ایسی عبادت فرض کی کہ جس میں کسی قسم کی شہرت و ناموری اور ریا و دکھاوا نہیں ہے؛ چنانچہ حدیث قدسی حدیث ہے: الصوم لی و انا اجزی بہ۔ یعنی روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ اس روایت میں ایک خاص نکتہ ہے، وہ یہ ہے کہ، ’’روزہ میرے لیے ہے‘‘۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا باقی عبادات اس خالق کائنات کے لیے نہیں ہیں؟ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی عبادات میں انسان شرکِ خفی یعنی ریا اور دکھاوے کا مرتکب ہو سکتا ہے؛ مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں کسی قسم کی ریا و دکھاوے کا شائبہ نہیں ہے۔
اس ماہ رمضان کو ایک اہم مقام حاصل ہے، اور یہ وہی ماہِ مقدس ہے کہ جس میں قرآن حکیم نازل کیا گیا، جو کہ سراپا ہدایت ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے: شَہرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنزِلَ فِیہِ القُراٰنُ، ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الہُدٰی وَ الفُرقَانِ، فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہرَ فَلیَصُمہُ، وَ مَن کَانَ مَرِیضًا اَو عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّن اَیَّامٍ اُخَرَ، یُرِیدُ اللہُ بِکُمُ الیُسرَ وَ لَا یُرِیدُ بِکُمُ العُسرَ، وَ لِتُکمِلُوا العِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰیکُم وَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ (سورہ بقرہ: 185)
(ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں؛ لہذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے، وہ اس میں ضرور روزہ رکھے۔ اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے۔ اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے، اور تمہارے لیے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا؛ تاکہ (تم روزوں کی) گنتی پوری کرلو، اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی اس پر اللہ کی تکبیر کہو، اور تاکہ تم شکر گذار بنو۔)
ماہ رمضان وہ مبارک اور مقدس مہینہ ہے کہ جس میں نیکیوں کا سنہرا آفر چلتا ہے۔ ہر ایک نیکی کے عوض ستر نیکیاں نامۂ اعمال میں درج ہوتی ہیں اور ہر نفل فرض کے مساوی شمار ہوتا ہے۔
اس مہینے میں کسی روضے دار کو افطار کرانے کا ثواب مانندِ صائم حاصل ہوتا ہے اور اس روزے دار کے ثواب میں کچھ نقص نہیں ہوتا، مزید برآں کہ یہ حصولِ ثواب شکم سیری پر موقوف نہیں؛ بلکہ چند لقموں اور کچھ گھونٹ پانی پر بھی باری تعالی کی جانب سے عطا ہوتا ہے۔
اس ماہ کو تین عشروں میں منقسم کیا گیا ہے، جس میں: پہلا عشرہ ’’رحمت‘‘، دوسرا عشرہ ’’مغفرت‘‘ اور تیسرا عشرہ ’’آگ سے خلاصی‘‘ ہے۔
اس مہنے کے تیسرے عشرے میں ایک رات ہے، جسے ’’شبِ قدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور شبِ قدر کے بارے میں قرآن میں ارشادِ باری ہے: لَیلَۃُ القَدرِ خَیرٌ مِّن اَلفِ شَہرٍ (سورہ قدر: 3)
(ترجمہ: شبِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔) یعنی اس ایک شب میں جس شخص نے عبادت کر لی تو اس کو ایک ہزار ماہ عبادت کا ثواب نصیب ہوگا۔ یہ شب اخیر عشرے کی طاق راتوں میں سے ایک رات میں ہے؛ چنانچہ حدیث رسول ﷺ میں ہے کہ: اسے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
یہی وہ مہینہ ہے کہ جس کو ماہ مغفرت فرمایا گیا ہے۔ اس ماہ میں اللہ رب العزت بندوں کی خوب خوب مغفرت فرماتا ہے اور ان کے نامۂ اعمال میں خطاؤں اور کوتاہیوں کے باب پر قلمِ عفو و درگزر پھیر دیتا ہے۔ خالق ارض و سما اپنے بندوں کے استغفار کے انتظار میں رہتا ہے کہ کب اس کے بندے دنیا کی مصیبتیں پھینک کر اس کے در سے وابستہ ہوں گے اور پچھلی زندگی سے توبہ کرکے مقصدِ اصلی کی جانب متوجہ ہوں گے۔ بہت سے اللہ کے بندے اپنے ماضی سے توبہ کرکے معبود حقیقی کے در پر سر بہ سجود ہو جاتے ہیں اور لا تعداد انسان رسمی عبادات ادا کرکے اپنی اُسی پرانی روِش پر باقی رہتے ہیں، گناہ و معصیت سے لت پت رہتے ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے رہتے ہیں کہ مجھ سے یہ سرزد ہونے والے گناہ، کسی شیطان کے وسوسے سے نہیں؛ بلکہ یہی میری فطرت اور میری حقیقت ہے اور میرا نفس خود ایک شیطان ہے۔
لیکن اب وقت ہے کہ خود اپنا محاسبہ کیجیے اور خود کو حقیقی مسلمان بنائیے۔ عبادات و معاملات کو درست کیجیے اور بارگاہِ ایزدی پر سر بہ سجود ہو جائیے اور اس فانی دنیا سے نظر پھیر کر ابدی زندگی کی تیاری کیجیے۔