حضرت سخی زین الدین ولی ریشی رح حضرت شیخ العالم شیخ نور الدین ولی ریشی رح کے دوسرے اور خاص خلیفوں میں سے تھے ۔ باندرکوٹ کشتواڑ میں پیدا ہونے والے اس ولی کامل کی وابستگی راجپوت خاندان سے تھی ۔ ان کا اصلی نام جے سنگھ تھا ۔ بچپن میں ہی ان کے والد کو دشمنوں نے قتل کیا تھا ۔ جے سنگھ ایک دن سخت بیمار ہوا ۔ کافی علاج و معالجہ کے باوجود بھی ان کا صحت بگڑتا گیا ۔ اچانک حضرت شیخ نور الدین ولی رح کا گزر وہاں سے ہوا ۔ جب انہوں نے جے سنگھ کی ماں کو روتے ہوئے دیکھا تو اپنی نظر عنایت سے جے سنگھ کو اس بیماری سے چھٹکارا دلایا اور اس کی ماں نے شیخ نور الدین ولی سے وعدہ کیا کہ ٹھیک ہوجانے کے بعد جے سنگھ کو کشمیر ان کی خدمت میں بھیجا جائے گا ۔ جے سنگھ سے ان کا نام زین الدین شیخ نور الدین نے ہی تبدیل کیا جب تمام افراد خانہ نے اسلام قبول کیا۔ حضرت زین الدین ولی ریشی رح حضرت بابا بام الدین ولی رح کی خدمت میں رہے جو شیخ نور الدین ولی رح کے پہلے خلیفہ تھے۔ جلد ہی وہ ایک باکمال ہستی بن گئے۔ زین الدین ولی نے عبادت و ریاضت میں خود کو اتنا مشغول رکھا کہ اپنے مرشد و استاد حضرت بابا بام الدین سے آگے بڑھ گیا ۔ جب حضرت شیخ نور الدین ولی رح نے انہیں اعلی اوصاف سے پر دیکھا تو ان کو ” عیش” کی پہاڈی پر گھنے جنگل کے بیچ میں خلوت گزین ہونے کا حکم دیا ۔ عیش سے یہ علاقہ بعد میں "عیش مقام” کہلانے لگا۔ انہیں اس علاقے کے لۓ نگران بھی مقرر کیا گیا جو اس زمانے میں دیووں اور پریوں کا مسکن تھا۔ ایک آدم خور دیو نے لوگوں کا جینا حرام کیا تھا۔ زین شاہ صاحب نے اس کو مار کر لوگوں کے مشکلات حل کئے۔ اسی دوران وہاں ایک غار کھدوایا گیا جو پہلے بھی موجود تھا اور سانپوں اور بچھوں نے وہاں اپنا ٹھکانہ بنایا تھا ۔ زین شاہ صاحب کے کہنے پر ہی وہ سب سانپ اور بچھوں دوسرے ہی دن وہاں سے نکلے اور دوسری جگہ قیام کیا ۔ ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ لوگوں کو نہ ہی ڑسیں اور نہ ہی ان کے ساتھ چھیڑیں ۔ باوجود کثرت وہ سانپ اور بچھوں آج بھی نہ کسی کو ڑستیں ہیں نہ ہی چھیڑتیں ہیں ۔ زین شاہ صاحب اسی غار میں محو عبادت رہے ۔ متقیوں اور پرہیز گاروں جیسی زندگی گزاری ۔ ایک دن جب شیخ نور الدین ولی نے اپنا نعلین پہنے کے لئے زین شاہ صاحب کو دیا کیونکہ ان کے پاؤں میں زخم تھے اور پیپ بہہ رہا تھا تو زین الدین ولی نے بہت عرصے تک نعلین نہیں پہنا۔ جب شیخ نور الدین ولی نے وجہ دریافت کی تو جواب ملا ” حضرت مرشد پاک کا دیا ہوا تبرک میں کیسے پہنوں بلکہ اسے میں اپنے سر پر رکھنا ہی سعادت سمجھتا ہوں” ۔ زین شاہ صاحب اپنے مرشد سے براہ راست فیض حاصل کرنے کے لئے کبھی کبھی چرارون، کیموہ، روپہ ون وغیرہ جاکر ان سے رابطہ میں رہتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک چرواہے نے زین شاہ صاحب کی جائے نماز کے نیچے مارے ہوئے بکری کے بچے کی کھال، سر اور پاؤں دبا کر رکھے۔ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ زین شاہ صاحب وہاں غار میں خلوت نشینی اختیار کرے ۔ اس لئے مقدمہ دائر کیا گیا کہ زین شاہ صاحب نے ہی بکری کے بچے کو مارا ہے۔ جب شمس الدین بابا کو سر، کھال اور پاؤں اکھٹے رکھنے کے لئے کہا گیا جو ان کی خدمت میں تھے تو زین شاہ صاحب نے خدا تعالی کی طرف رجوع کیا ۔ بزغالہ زندہ ہوگیا ۔ غنی چرواہے نامی شخص نے زین شاہ صاحب کے پیر پکڑے اور معافی طلب کی ۔ زین شاہ صاحب کے نفس کشی کا عالم یہ تھا کہ اخروٹوں کے چھلکوں کو اپنا غذا بنایا۔ انہوں نے شمالی و جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں کی سیر کی اور اشاعت دین اور وعظ و تبلیغ کی ۔ جب زین شاہ صاحب پنڈوبل جاکر یاد الہی میں محو ہو جاتے تھے تو جانور اور پرنرے بھی ان کے اردگرد جمع ہوجاتے تھے۔ زین شاہ صاحب جب پنڈوبل میں ہی تھے تو ایک خدمت گزار نے مرشد بزرگوار کے واصل بحق ہونے کی خبر دی۔ تو اپنے رفیقوں کے ساتھ جن میں بابا شمس الدین، بابا دریاودین، بابا شکردین، بابا حنیف الدین رح وغیرہ شامل تھے کے ہمراہ چرارون پہنچے۔ بابا زین الدین ولی ریشی رح نے ہی اپنے مرشد شیخ نور الدین ولی کے جنازے کی امامت فرمائی۔ ایک دن سلطان کشمیر زین العابدین بڈشاہ زین شاہ صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لئے آئے۔ زین شاہ صاحب عبادت الہی میں محو تھے اور بادشاہ سے کچھ نہ کہا ۔ بادشاہ ناراض ہوکر واپس چلا گیا۔ زین شاہ صاحب نے خدمت گزاروں سے کہا کہ سجادہ آلودہ ہو گیا ہے اور اسے دھو ڈالو ۔ جب سلطان کو یہ خبر پہنچی تو اسے جلا وطن کرنے کا حکم دیا گیا ۔ زین شاہ صاحب زمستان تبت کی طرف روانہ ہوئے اپنے مریدوں کو لیکر۔ بہت سے لوگوں کو وہاں مسلمان بنایا ۔ وہاں کے بادشاہ کا بیٹا اچانک فوت ہوا اور اپنی جہالت کی وجہ سے زین شاہ صاحب پر تہمت لگائی کہ ان کے وہاں آنے سے ہی بچہ مرگیا ۔ زین شاہ صاحب نے ایک دن انتظار کرنے کو کہا اور دوسرے ہی دن بچہ زندہ ہوا۔ زین شاہ صاحب تبت میں تھے تو بابا بام الدین رح کا انتقال بمزو اننت ناگ میں ہوا۔ زین الدین ولی طے مکان کرکے بمزو پہنچے اور انہیں غسل دے کر تجہیز و تکفین کرکے پھر تبت پہنچے اور تبلیغ دین میں مصروف ہوگئے ۔ زین شاہ صاحب کو ملک بدر اور ترک وطن کرنے کے بعد بڈشاہ کو بہت مصیبت جھیلنی پڑی۔ وہ اور اس کا بیٹا شدید بیمار ہوئے۔ جب حکیموں اور ڑاکٹروں کے علاج و معالجہ کے باوجود بھی ٹھیک نہ ہوئے تو خود ہی کہا ” میرے درد کا علاج صرف وہی درویش کرسکتا ہے جسے میں نے محض شاہانہ غرور کی وجہ سے جلاء وطن کیا ہے” ۔ بادشاہ نے اپنے بیٹے شہزادہ حیدر خان کو تبت بھیجا تاکہ وہ سمجھا بجھا کر اور عذرومعزرت کرکے انہیں اپنے ہمراہ لے آئیں ۔ چناچہ زین الدین ولی نے شہزادہ کی التجا قبول کی اور کشمیر کی طرف روانہ ہوئے ۔ باوجود شدید درد بادشاہ اپنے وزراء کے ساتھ زین الدین ولی کے استقبال کے لئے نکلے۔ جوں جوں بادشاہ زین الدین ولی کے نزدیک آتے گئے تو بادشاہ صحت یاب ہوتا گیا یہاں تک کہ بادشاہ بالکل تندرست ہوگیا ۔ کچھ دنوں بعد جب زین الدین ولی اپنی قیام گام پر تشریف آور ہوئے تو ان کے احترام اور استقبال کے لئے پرندے اور جنگلی جانور بھی جمع ہوئے ۔ وصال سے پہلے زین شاہ صاحب نے اپنے خلیفوں کو بتایا تھا کہ چالیس دن تک وہ غار کے اندر نہ آئے ۔ حضرت زین الدین ولی ریشی رح ۸۵۳ ہجری کو واصل بحق ہوگئے ۔ چالیس دنوں کا عرصہ گزرنے کے بعد جب زین الدین ولی کے خلفاء غار کے اندر تشریف لے گئے تو وہاں ان کے بیٹھنے کی جگہ پر سجادہ اور تسبیح دیکھی جس پر وہ پریشان ہوئے۔ حضرت زین الدین ولی ریشی رح کا سالانہ عرس مبارک اپریل کے مہینے میں قمری کیلینڈر کے ۱۲ تاریخ کو منایا جاتا ہے ۔ اللہ ہمیں زین شاہ صاحب کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی وسالت سے ہمارے دین و دنیا کی تمام پریشانیاں دور ہوجائیں ۔
****
رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر