سرفراز احمد ٹھکر( پونچھ)
کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی کا دارومدار وہاں کے تعلیمی نظام پہ منحصر ہوتا ہے جس معیار کا وہاں کا تعلیمی نظام ہوگا ویسے ہی ترقی ممکن ہو سکے گی۔مال ودولت سے نہیں تعلیم سے نسلیں سدھر جاتی ہیں۔ ہندوستان میں بھی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے اگرچہ بہت سی کاوشیں کی جا رہی ہیں اور بہت سی اسکیموں کو متعارف کروایا جا رہا ہے لیکن ان تمام کاوشوں کے باوجود بھی یہاں شرح خواندگی کو سو فیصد لانے میں بہت سی رکاوٹیں آرہیں ہیں۔مرکزی زیر انتظام اور دھرتی پہ جنت کہی جانے والی جموں و کشمیر کی ہی بات کی جائے تو بھلے ہی پورے ملک کی طرح یہاں پہ بھی محکمہ تعلیم میں انقلاب لانے کے لئے بہت سی سکیموں کو متعارف کرایا گیا ہے۔ پرائمری سطح کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے سال 2003 میں سرو شکشا ابھیان ا سکیم کو عمل میں لایا گیا۔ جس کا مقصد 6 سال سے 14 سال کی عمر کے بچوں کو مفت میں تعلیم دینا تھا اس سکیم کے تحت جموں و کشمیر کے دور دراز کے علاقوں میں بھی بہت سارے نئے پرائمری اسکول کھولے گئے تا کہ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے۔سال 2009 میں ثانوی سطح کی تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے راشٹریا مدھیامک شکشا ابھیان ا سکیم کو لاگو کیا گیا۔ اس اسکیم کے تحت بہت سارے پرائمری اور مڈل سکولوں کا درجہ بڑھا کر انہیں ہائی اور ہائر سکینڈری اسکولوں میں تبدیل کیا گیا اور پھر ان اسکولوں میں اساتذہ کو تعینات کرکے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی گئی۔
سال 2016 کے ایک سروے کے مطابق ریاست جموں و کشمیر میں لگ بھگ27,500طلباء ایسے ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اسکولوں سے باہر ہیں، ان میں دو طرح کے طلبا ہیں ایک وہ جنہوں نے سرے سے ہی سکولوں میں داخلہ نہیں لیا اور ایک وہ جنہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر پرائمری یا مڈل سطح پر ہی اپنی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پرائمری یا مڈل سطح پر تعلیمی سفر کو خیرباد کہنے والوں میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی ہی اگر بات کی جائے تو یہاں کے بہت سارے ایسے علاقے ہے جہاں کم عمری میں ہی بچوں کو اور خاص کر لڑکیوں کو اپنے تعلیمی سفر کو خیر باد کہہ کر کوئی اور کام کرنا پڑتا ہے اور ان کا تعلیم حاصل کرنے کا خواب محض ایک خواب ہی رہ جاتا ہے۔سرحدی ضلع پونچھ کے بہت سے ایسے علاقے ہیں جو ترقی کے اس دور میں بھی بہت ہی پسماندہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بچے اور بچیاں تعلیمی سہولیات سے محروم رہ جاتے ہیں۔دس ہزار سے زائد آبادی والے تحصیل منڈی کے گاؤں چھکڑی بن کا جب ٹیم چرخہ نے دورہ کیا تو وہاں کے طلباء و طالبات سے بات کرنے پر بہت ساری ایسی وجوہات سامنے آئی جن کی بنا پر وہاں کے طلباء اور خاص کر طالبات کو اپنی تعلیم چھوڑ دینی پڑی۔ بن اول سے رحمت جان عمر16سال کا کہنا تھا کہ گاؤں میں آٹھویں جماعت تک پڑھائی کرنے کے بعد انہیں مجبوراً تعلیم کو خیرباد کہنا پڑا، کیوں کہ گاؤں میں کوئی بھی ہائی سکول نہ ہے اور نہ ہی آج تک اس علاقے میں سڑک کی سہولت دستیاب ہوسکی۔ مزید تعلیم کے لئے ہمیں منڈی یا لورن جانا پڑتا تھا اور روز کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا کسی بھی طرح ممکن نہ تھا اس لئے مجبوراً ہمیں سکول چھوڑنا پڑا۔ بن دوم سے ایک طالبہ عائشہ عمر بیس سال کا کہنا تھا کہ”ہماری سرکار’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ کے نعرے تو لگاتی ہے لیکن کیا روزانہ کئی کلو میٹر پیدل سفر کر کے کوئی بیٹی تعلیم حاصل کر سکتی ہے؟ ہمارے گاؤں میں تو مڈل سکول سے اوپر کوئی ادارہ ہے ہی نہیں جہاں ہم مزید تعلیم حاصل کر سکیں۔“
چکھڑی سے ایک اور طالبہ فریدہ عمر 17 سے جب تعلیم کو خیرباد کرنے کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ ثانوی تعلیم کے لئے ہمیں کئی کلومیٹر پیدل سفر کرکے ہائی سکول اڑائی میں جانا پڑتا تھا، یا تو گاوں میں کوئی ہائی سکول ہوتا یاسڑک کی سہولت دستیاب ہوتی تو مجھے اپنے تعلیم پورا کرنے کے کا خواب چکنا چور نہ کرنا پڑتا۔ سرپنچ چکھڑی یاسین شاہ طلباء کی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ واقع ہی چکھڑی گاؤں میں کوئی بھی ہائی یا ہائر سکینڈری سکول نہیں ہے اور نہ ہی پورے گاؤں میں سڑک کی سہولت دستیاب ہے۔ کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنا طلباء اور خاص کر طالبات کے لیے واقع ہی بہت زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے گاؤں کے بہت سارے بچے کم عمری میں ہی اپنے تعلیمی سفر کو خیر باد کہہ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ محض اسکولوں کی عدم دستیابی یا سڑک سے محرومی ہی تعلیم حاصل کرنے میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنتی بلکہ اور بھی بہت سارے عوامل ہیں جو کم عمری میں ہی بچوں کو اور خاص کر بچیوں کو اپنی تعلیم چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جغرافیائی اور اقتصادی نقطہ نظر سے اگر دیکھا جائے تو اس گاؤں اور اس کے گرد و نواح کے علاقے انتہائی پسماندہ ہیں، جہاں نہ ہی کھیتی باڑی سے کوئی اچھی آمدنی وصول ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے آمدنی کے ذرائع ہیں۔سال میں کم از کم آٹھ نو ماہ طلباء کے والدین و سرپرستان ہماچل، پنجاب اور ملک کی دیگر ریاستوں میں مزدوری کی غرض سے نکل جاتے ہیں اور اس مزدوری سے بمشکل وہ اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ پال سکتے ہیں۔ اس کی وجہ سے نہ تو والدین اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ان کی تعلیم و تربیت کے لیے وقت نکال سکتے ہیں۔ پانچ بچوں کے والد محمد شریف عمر پچاس سے جب ان کے بچوں کو سکول چھڑا نے کی وجہ پوچھی تو ان کا کہنا تھا کہ،”وہ اکیلے پانچ بچوں کی کفالت اور ان کی تعلیم و تربیت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ اس لئے مجبوراً انہوں نے اپنے بچوں کو اسکول سے واپس کر کے مزدوری پہ لگا دیا تاکہ گھر کے اخراجات پورے ہو سکیں اور بچیوں کو بھی گھریلو کام کاج میں لگا دیا تاکہ وہ والدہ کا سہارا بن سکیں۔
ان سب سے ہٹ کر ایک اور بڑی وجہ بھی ہے جس کو لے کر بچے اور بچیاں اپنے تعلیمی سفر کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس عمر میں بچے ذہنی انتشار کا شکار بھی ہوتے ہیں، ان میں صحیح اور غلط کو پرکھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس عمر میں اگر کسی کی رہنمائی حاصل نہ ہو تو بچے اور بچیاں نہ صرف اپنی تعلیم کو ترک کر دیتے ہیں بلکہ کئی بار غیر اخلاقی کاموں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی سطح پر جدید قسم کے تعلیمی ادارے قائم کرنے، بہترین اور ماہر اساتذہ کی تعیناتی کرنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پر بھی بچوں کی رہنمائی کی جائے۔ بچوں کو تعلیم کی رغبت دلانے کے لیے سکولوں میں رنگارنگ تمدنی پروگرام کراے جائیں، والدین اور اساتذہ کے مابین ربط بحال رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ والدین، طلبہ اور سماج کے عام لوگوں میں تعلیم کے تیں بیداری لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ تبھی ہم اپنے ملک کی شرح خواندگی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ ایک تعلیم یافتہ سماج اور ایک بہتر مستقبل کی امید رکھ سکتے ہیں۔ ورنہ ہمارا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔(چرخہ فیچرس)