تحریر : فرحینا مشتاق ڈوڈہ
ایک جملہ جو سننے میں بڑا ہلکا پھلکا محسوس ہوتا ہے ہے لیکن موجودہ معاشرے کے لیے زوال کا سب سے بڑا سبب بن چکا ہے۔میں اپنی بچی کو تو عالمہ اور فاضلہ بناتی، میں اپنے بیٹے کو قرآن کی تعلیم تو دیتی لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ بندہ تو اس دنیا میں ایسے کام کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا جن کو انجام دے کر وہ اللہ کو راضی کرتا، اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اخروی کامیابی کے لیے تگ و دو کرتا، لیکن افسوس کہ ہم ایسے جال میں پھنسے جا رہے ہیں کہ کہ شاید ہی اس سے اخراج ممکن ہو۔ہمارے گھر تباہ ہو رہے ہیں، خاندانی نظام (family system) ناکامی کی اور جا رہے ہیں، ہماری نوجوان نسل (youth) تباہی کے راستے کو اپنا مقدر سمجھ رہی ہے اور ہم ٹس سے مس نہیں ہورہے ۔ ہمیں تو بس ایک ہی فکر لا حق ہے کہ ‘لوگ کیا کہیں گے ۔یقین جانیے کہ یہ جملہ اب محض جملہ نہیں رہا ہے بلکہ ایک نفسیاتی مسئلہ (psychological disorder) بن چکا ہے۔عام لوگوں کو تو یہ بس ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن ہمیں اندازہ نہیں کی اس ایک جملے نے کتنے لوگوں کی زندگی ویران کر دی۔ نکاح جیسے آسان ترین عمل کو انجام دینا اتنا مشکل بن گیا ہے کہ مالی قوّت کی نابرابری کی وجہ سے کتنی ہماری بہنیں گھروں میں بے بس زندگی کے اس غم کو جہل رہی ہیں۔ بیٹا ماں سے تو کہہ رہا ہے کہ مجھے بس ایک دیندار لڑکی چاہیے، مال و متاع تو ختم ہونے والی چیز ہے، لیکن ماں کو اس بات کی فکر ہے کہ ‘لوگ کیا کہیں گے’ ٦٠٦١ /2021 کی ایک ریپورٹ کے مطابق وادئ کشمیر میں اب تک تقریباً پچاس ہزار (50,000) عورتیں ایسی ہیں جو نکاح کی عمر کو پار کر چکّی ہیں لیکن مالی کمزوری اور اسی طرح کی باقی وجوہات کی وجہ سے کوئی اُنہے اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ غور مطلب بات یہ ہے کہ بچے سے لے کر جوان تک اور جوان سے لے کر بھوڑے شخص تک صبح سے شام بس یہی ایک جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ‘لوگ کیا کہیں گے’۔ بچوں کے کریئر (carrer) کو لے کر فیصلے لینے ہوں، ان کی شادی کو لے کر قدم آگے بڑھا نہ ہو یا پھر گاڑی بنگلے کو لے کر کوئی نئی بات ہو، ہر عمل میں بس ایک بات مشاہدے میں آتی ہے کہ "ہم بھی کسی سے کم نہیں "۔
میرے محترم بھائیو اور بہنو! ہمارا معاشرہ دن بدن زوال کا شکار ہوتا جا رہا ہے، ہر روز ہمیں خودکشی (suicides) کی خبریں سننے کو ملتی ہیں، ذہنی دباؤ (stress, depression rate) ہماری نوجوان نسل میں بڑھتا جا رہا ہے، ایک ریپورٹ کے مطابق "٦٠٦٦”/2022 میں وادئ کشمیر میں(586/ ۵۸۶) (suicidal cases) دیکھنے کو ملے ہیں ۔ چھوٹی عمر میں ہمارے بچے نشہ آور (drugs etc) چیزوں کا استعمال کر رہے ہیں اور ایک ریپورٹ کے مطابق کشمیر میں ہر روز تقریباً 150/۱۵۰ آدمی (drug addicted) ہورہے ہیں ، فحش کاری عام ہورہی ہے اور ان سب خرافات کے پیچھے اگر گہرائی میں وجہ کو تلاش کیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ہم آخرت کی فکر کے بجائے دنیا والوں کی فکر میں گرفتار ہیں ۔ کسی بھی قوم کا سرمایہ اُسکی نوجوان نسل ہوتی ہے اور معاشرے کی ترقی و خوشحالی کا انحصار اسی طبقے پر ہوتا ہے، لیکن ان حالات میں شاید ہی ہم اس کامیابی تک جا پہنچیں!!! ماؤں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی تربیت شر یعت کے طرز پر کریں، اسلاف کے طریقہ کار کو اپنا طریقہ کار بنائے نا کہ لوگوں کو دکھانے کے لئے، جلانے کے لیے یا خوش کرنے کے لئے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری مائیں خود اپنے ہاتھوں سے مستقبل کے اس ثمر کو پامال کر رہی ہیں ۔
معزز قارئین، ہمیں مل جل کر اس معاشرے کو کامیابی کی طرف لے کے جانا ہے نہ کہ ناکامی کی طرف تو یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنی اپنی جگہ محاسبہ کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔اللہ کو راضی کرنے میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں یا لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے، یقین جانیے کہ ہمیں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے، ہماری ایک ایک عمل کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اوروں کے لئےبھی برائی کا سبب بنیں اور اپنی آخرت کے ساتھ ساتھ اُنکی آخرت بھی برباد کریں۔اور جو فکر ہمارے دامن گیر ہو چکی ہے کہ "لوگ کیا کہیں گے ” اسکو اپنے ذہنوں سے نکال کر اللہ کی فکر کو اُجاگر کریں جسکی فِکر ہی نجات اور کامیابی کا سبب ہے تب ہی جاکر ہم پُر امن اور خوشحال زندگی گزار سکتے ہیں ۔