فیس بک ایک آن لائن سوشل میڈیا ویب سائٹ ہے جس کا آغاز فروری 2004 میں کیا گیا۔ شروعات میں فیس بک کی سائٹ محض یہ کالج تک محدود تھی لیکن کچھ ہی مدت میں فیس بک سائٹ کو پوری دنیا کی پذیرائی مل گئی۔ یہ ایک ایسی آن لائن سوشل میڈیا سائٹ ہے جس میں ہم ایک دوسرے سے جب چاہے اور جب مرضی رابطے میں رہ سکتے ہیں اور اپنی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کر سکتے ہیں۔ فیس بک پر ہر ماہ 2.5 بلین تصاویر اپلوڈ ہوتی ہیں۔ فیس بک دنیا کا مقبول ترین سوشل میڈیا نیٹ ورک ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ فیس بک کو روزانہ استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 2 ارب ہے۔ کوئی ہی فرد ایسا ہوگا جوآج کی تاریخ میں فیس بک کا استعمال نہ کرتا ہو۔ فیس بک کی ایجاد سے لوگ ایک دوسرے کے قریب تو آگئے لیکن اس کی وجہ سے صارفین ناخوش اور حسد کی عادت میں مبتلا ہوکر ذہنی تناؤ کا شکار ہوگئے۔ یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کی جانب سے کی گئی ایک تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ سوشل میڈیا( فیس بک) استعمال کرتے ہوئے ایک ہفتے کی بریک لیتے ہیں وہ اپنی زندگی سے زیادہ خوش ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ ترقی کرتے ہیں جبکہ فیس بک استعمال کرنے والوں میں نا خوش رہنے کا رجحان زیادہ پایا گیا۔
اگر بات ریاست جموں و کشمیر کی کی جائے تو پچھلے چند سالوں سے یہاں فیس بک کا استعمال عجیب و غریب انداز سے ہو رہا ہے۔ ایسے ایسے ویڈیوز یا پوسٹس دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے نجی مسائل کو فیس بک پر ویڈیو کی صورت میں اپ لوڈ کیا جاتا ہے اور لوگوں سے راۓ طلب کی جاتی ہے۔ صارفین شوہر یا بیوی میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنا کر ان کی خوب خبر لیتے ہیں۔
بات اتنی ہی نہیں اب تو فیس بک ہمارے مولویوں کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں وہ پیسے کمانے کے ساتھ ساتھ فرقہ پرستی کو عروج دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے بےسود مسائل کا ذکر چھیڑتے ہیں اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناکر اپنے اپنے پیروکاروں کو کام پر لگاتے ہیں۔ مختلف فرقوں سے وابستہ صارفین پھر مولویوں کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کو گالی گلوچ دے کر اپنے اپنے فرقہ کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسی ویڈیوز آگ کی طرح پھیلائی جاتی ہیں۔
فیس بک واحد جگہ ہے جہاں آپ کے درد کو بھی لائک کیا جاتا ہے۔ ایک ایسی جگہ کلجہاں کسی کے درد کا تماشہ بنا دیا جاتا ہے۔ آج کل یہ بخوبی دیکھا جا سکتا ہے کے روز بروز فیس بک پر دل دہلا دینے والی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں مثلاً کسی جگہ حادثہ ہوجاتا ہے، تو سب سے پہلے حادثے کو کیمرے میں قید کیا جاتا ہے۔ کوئی انسان موت اور زندگی کی کشمکش میں مدد کے لیے فریاد کرتا رہتا ہے لیکن مدد کرنے سے پہلے اس کی ویڈیو بنائی جاتی ہے اور فیس بک پر اپلوڈ کی جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں انسان کا ضمیر اس قدر مر چکا ہے کہ فیس بک پر شہرت حاصل کرنے کے لیے اب مردوں کو بھی بخشا نہیں جاتا! دنیا سے چھوڑ کر جانے والے عزیز نوجوانوں، بہنوں اور بیٹیوں کی تصاویر اور ویڈیوز کو ان کے اہل خانہ کی اجازت کے بغیر فیس بک پر اپ لوڈ کیا جاتا ہے۔ دراصل جب سے فیس بک نے Monetization کا عمل شروع کیا ہے یعنی فیس بک چینل یا پیج سے پیسے کمانے کا ایک طریقہ کار، تب سے ایسی چیزوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ خواہ کسی کا جنازہ ہو، کسی کی شادی ہو، کوئی شراب پی کر پکڑا گیا ہو، کوئی چوری کی واردات میں پھنس گیا ہو، یہاں تک کہ لحد میں ڈالتے وقت مردے کی بھی ویڈیو بنا کر فیس بک پر اپ لوڈ کی جاتی ہے۔
فیس بک کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان یہاں کی صحافت کو پہنچا ہے۔ ہاتھ میں مائیک لے کر کوئی بھی شخص اپنے نام کے آگے فیس بک پر Jouranlist لکھ دیتا ہے اور بہت دفعہ جعلی اور غیر مستند خبروں کو آگ کی طرح پھیلانے میں ان لوگوں نے اچھا خاصا کردار نبھایا ہے۔ فیس بک پر سب سے بڑی فوج خودساختہ صحافیوں کی ہے، جو اسے ایسی ویڈیوز اپلوڈ کرتے رہتے ہیں جن کا صحافت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں رہتا اور لوگوں کو ان ویڈیوز کو شیئر کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ دراصل ان کا مقصد صحافت نہیں بلکہ خود کو اور اپنے پیج یا چینل کو پروموٹ کرنا ہے، جو بعد میں ان کی کمائی کا ایک ذریعہ بن سکتا ہے۔ کچھ صحافی حضرات کسی کہانی کو لے کر زور زور سے روتے بھی ہیں کیونکہ رونے والی ویڈیوز سب سے زیادہ شیئر ہوتی ہیں اور ایسی ویڈیوز پر اچھی خاصیviews بھی ملتی ہیں۔
بات یہاں ختم نہیں ہوتی، دین کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانا اب عام سی بات ہوگئی ہے۔ کبھی روٹی پر اللہ کا نام، کبھی تربوزے پر تو کبھی آم پر، اسی طرح بادل میں اڑتا ہوا گھوڑا دکھانا، چاند پر خانہ کعبہ کی تصویر دکھانا وغیرہ وغیرہ اور پھر اللہ کا واسطہ دے کر ان ویڈیوز کو زیادہ سے زیادہ شیئر کرنے کی تلقین کرنا محض ایک جھوٹی ترکیب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ویڈیوز کو edit کر کے ایک نیا فرضی ویڈیو بنا کر پیسے کمانے کے طریقے ہیں۔ یہاں پوسٹ یا ویڈیو کو دیکھنے سے پہلے ہی شیئر کیا جاتا ہے اور اس میں یہاں کی تعلیم یافتہ عوام بھی شامل ہے۔
سماج کے ناقص انسانوں کو بھی بخشا نہیں جاتا۔ محض صارفین کی تفریح کے لیے سیدھے سادے اور ذہنی مرض میں مبتلا لوگوں کا ویڈیو بنا کر فیس بک پر ڈالا جاتا ہے اور اس طرح ایک ناقص انسان کا تماشہ بنا کر پوری دنیا کو دکھایا جاتا ہے۔Prank call کرکے لوگوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایسی فحش چیزوں کو بڑی جلدی مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے اور لاکھوں میں لوگ ایسی ویڈیوز کو دیکھنا پسند کرتے ہیں ورنہ کسی انسان کا مذاق اڑا کر لاکھوں میں views حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟ گویا فیس بک سے کوئی چیز نہ بچ سکی، کس کے گھر میں کیا پک رہا ہے، کون گھر سے باہر ہے، کون کھیتوں میں ہے، کون پکنک پر گیا ہے یہ تو چند معمولی سی باتیں ہیں۔ میرے ایک دوست نے مسجد میں نماز پڑھتے پڑھتے تصویر کھینچ کر اپنی بیوی کوTag کیا تاکہ اس کو بھروسہ ہو جائے کہ اس کا شوہر نماز کا پابند ہے۔
میں یہ مضمون لکھ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے فون سے زور سے آواز آئی۔ دیکھا تو فیس بک باتیں کرنے لگا۔ فیس بک بولا بھائی کیا لکھ رہے ہو، میں نے سب کچھ دیکھ لیا، تم بھی یہ مضمون لکھ کر فیس بک پر ہی اپلوڈ کرنے والے ہو! لیکن ایک بات سنو تمہارے جموں کشمیر کا خدا ہی حافظ! تمہارے لکھنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ میں نے پوری دنیا کا سفر کیا ہے لیکن سب سے زیادہ پریشان ریاست جموں و کشمیر میں ہوا۔ باہری دنیا میں لوگ اچھے ویڈیوز اور پوسٹس کو پسند کرتے ہیں اور ضرورت ہونے پر شیئر بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہاں کچھ الگ ہی ماجرا ہے۔ میں نے پوچھا بھائی کیا ماجرا ہے؟
فیس بک بولا ! ادھر آدمی کتنا بھی اچھا لکھے اس کو اردو اخبار کی طرح اور تمہارے مضمون کی طرح کوئی نہیں پڑھنے والا ، لائک اور شئیر تو دور کی بات ہے اس کے برعکس فحش اور فرضی چیزوں کو یہاں کے لوگ بے حد پسند کرتے ہیں اور ان کو مزید پھیلانے میں پہل کرتے ہیں۔
فیس بک کہنے لگا کہ اس نے سنا تھا” نیکی کر دریا میں ڈال” مگر ادھر تو معاملہ یوں ہے۔۔” کچھ بھی کر! فیس بک پر ڈال” ۔۔۔ میں نے فیس بک سے استدعا کی کہ اس سنگین مسئلے کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔ فیس بک کہنے لگا کہ وہ صرف اور صرف یہاں کے لوگوں کی سوچ پر منحصر ہے۔ میرے ہاتھ میں ہوتا تو میں ایسے افراد کےfacebook account ہی بند کر تا لیکن میں بھی کسی کا نوکر ہوں۔ میرا بھی کوئی boss ہے۔ جس طرح یہاں سرکاری ملازموں کو سوشل میڈیا پر منہ کھولنے پر پابندی عائد کی گئی ٹھیک اسی طرح میری زبان پر بھی سیل لگا دی گئی ہے۔ یہاں کوئی بھی بنا روک ٹوک کے اکاؤنٹ کھول سکتا ہے اور کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔ میں بھی تمہاری طرح بے بس ہوں۔ فیس بک کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے۔ بیچارہ یہاں کے لوگوں سے بڑا پریشان تھا اور چلتے چلتے بول کے گیا کہ جب تک یہاں کے لوگوں کی سوچ میں بدلاؤ نہیں آئے گا، یہاں کے تعلیم یافتہ نوجوان لوگوں کو سوشل میڈیا کے صحیح استعمال سے آگاہ نہیں کریں گے، محض پیسوں کی خاطر یا شہرت کی خاطر لوگ ویڈیوز بنانا بند نہیں کریں گے تب تک بدلاؤ کی امید رکھنا بے کار ہے اور ہاں اس مضمون کو بھی گنے چنے لوگ ہی پڑھیں گے۔بس اتنا کہہ کر فیس بک کی آواز آنی بند ہو جاتی ہے۔۔
فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ
[email protected]