انسان نے زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کی طرف زقند بھری ہے ۔ بحرو بر میں نئے امکانات ،پہلوئوں اور سمتوں کی تلاش و جستجو کے ساتھ آسمان کی موجودات پر بھی کمندیں ڈال رہے ہیں اور نئی بازیافتوں سے دل و دماغ کو منور کر رہے ہیں ۔ زمین کے اندر پا ئے جا نے والے بیش بہا خزانوں کی تلاش کا کام برسہا برس میں بھی مکمل نہیں ہو سکا پھر بھی آسمان کو منسحر کر نے کا جذبہ اور جنون فزوں تر ہو تا جا رہا ہے ، تعلیم ، تحقیق اور جستجو کے میدان میں ترقی اور پیش رفت کے ساتھ اس زمین کے با سیوں کے طرز ، بود و باش اور معیار زندگی میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ۔ رہائشی عمارتوں اور دفاتر کے ساتھ ساتھ لباس اور پہنا وے میں بھی زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے ، گفتگو کا معیار بھی پہلے سے بہتر ہوا ہے ، علاج معالجے کی جدید ترین سہولتوں کی وجہہ سے بہت سے امراض پر قابو پالیا گیا ہے ،مگر یہ کیا ملک کے غریب عوام کی ترقی وہیں کی وہیں رُکی ہو ئی ہے جہاں ہم سب ابتدا میں تھے ۔ اس ترقی کو گہن کیوں لگا ہوا ہے ؟ غریب عوام کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس سے ان کی ترقی پر قد غن لگ چکا ہے ۔
موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کی سر کار غریبوں کی سرکار ہو گی لیکن اقتدار میں آنے کے بعد غریبوں کا جینامشکل ہو گیا ، غریبوں کا روزی کمانا مشکل تر ہے ، نوکریاں دستیاب نہیں ، انڈسٹریاں تباہ حال ہیں ، سامان کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ، مہنگائی ہے کہ کم ہو نے کا نام نہیں لے رہی ۔ اس پر موجودہ سرکار کے وزرا کوئی بحث نہیں کر تے ۔ کیا یہی غریبوں کی سرکار کا مطلب ہے کہ غریبوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جا ئے ، ان سے جینے کا حق چھین لیا جا ئے اور غریبی کو ختم کر نے کے بجا ئے غریبوں کو ہی ختم کر نے کے در پے رہا جا ئے ۔ غربت اور بے روز گاری ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، اگر اس ملک کا کوئی شخص پڑھا لکھا ہے تو اس کونوکری نہیں ملتی ، کیونکہ اس کے پاس سفارش نہیں ہو تی ، پھر تجربہ ما نگا جا تا ہے ، نوکری ملے گی ہی نہیں تو تجربہ کہا ں سے آئے گا ۔ ہمارے ملک میں اگر روز گار کے مواقع میسر ہو جا ئیں اور نوجوانوں کو نوکریاں ملنے لگ جا ئیں تو غریب کا بھلا ہو، مگر یہاں ترقی صرف امیروں کے حصے میں آتا ہے ، سفارش بھی ان ہی کے پاس ہے ، ان سے تجربہ نہیں مانگا جا تا کیونکہ ان کے پاس سفارش جیسا زہر موجود ہے ، اگر حکومت اس مسئلے کو حل کر نے میں سنجیدگی دکھا تی تو ہمارا ملک ترقی کے زینے طئے کر نے میں پیچھے کیوں رہتا ؟۔
سچ ہی کہا ہے کسی نے طاقت کی شکل کوئی بھی ہو جس کو مل جا تی ہے وہ زمین چھوڑ دیتا ہے ۔ آج کل ہمارے ملک میں بھی ایک طرف اقتدار کی طاقت سے حکمران سرابور ہیں تو دوسری طرف عوامی طاقت سے مختلف النوع سیاسی جماعتیں ۔ یعنی کے سب ہی طاقت کے نسے میں چور ہیں ۔ اور جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ، یہ لوگ تہذیب کا دامن چھوڑ تے جا رہے ہیں ، پارلیمنٹ ہو یا سیاست دونوں کے درمیان چاہے کتنی ہی شدید مخالفت کیوں نہ ہو ، چاہے سیاسی دشمنی ہی کیوں نہ ہو لیکن انھیں زبان استعمال کر نے کی ہر گز اجازت نہیں ہو نی چاہئے کیونکہ کوئی بھی مہذب معاشرہ زبان کی بنیاد پر ہی قائم رہ سکتا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومت اپنے معیار کو بلند رکھتے ہوئے آگے کا معاملہ حل کرے ، لیکن یہ بھی ایک کڑوی سچائی ہے کہ ان کے لوگ ایسا نہیں کر ینگے لیکن وہ اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ اپنی حکومت کے وزیروں اور ممبران پارلیمنٹ کو تہذیب کے دائرے میں رہنے کی سخت ہدایت کریں حالانکہ ممبران کو بولتے وقت احتیاط برتنے کی تلقین ہو تی ہے مگر یہ کا فی نہیں ۔
اختلاف رائے رکھنا جمہوریت کی خوبصورتی ہے مگر اس کا مقصد ملک کی ترقی اور لوگوں کی بہتری ہو نی چاہئے ۔ ہمارے نظام نے ہمیں بہت سارے پلیٹ فارم فراہم کر رکھے ہیں جن پر عمل کر کے ہم سب اپنے وطن کو ترقی کے مراحل طے کر اتے ہو ئے ترقی یا فتہ بنا سکتے ہیں ۔ کاش کہ کوئی لیڈر اس پر عمل کر تے ہو ئے ملک کے عوام کی داد رسی کر ے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ منصوبے بنا ئے جا تے ہیں مگر اس پر شفاف طریقے سے عمل در آمد نہیں ہو تا ۔ مثالی جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کا مظاہرہ کر نا سب کا فرض ہے ،ا چھی گفتگو یا بات کر نا بھی ایک آرٹ یعنی فن ہے ، یہ ہر کس و نا کس کے بس کا روگ نہیں ، وہی لوگ اس فن میں ما ہر ہو تے ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہو تا ہے ، اچھی گفتگو اور بات کر نے والوں کی ہر جگہ تعظیم ہو تی ہے، اچھی گفتگو سے ہمارے معاشرے میں امن و امان اور خوشبو ئوں و مسرتو کے گلاب مہکتے رہتے ہیں ۔ آج ہمارے معاشرے ، سو سائیٹی اور ملک میں بے سر و پا باتیں کر نے والوں کی کوئی کمی نہیں ۔ ان میں خواندہ اور نا خواندہ تمام قسم کے لوگ شامل ہیں ، جس کے باعث ہمارے ملک کے اتحاد اور سا لمیت کو زبر دست خطرہ لا حق ہو سکتا ہے ۔ ایسے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اس قسم کے لوگوں پر نظر رکھی جا ئے تاکہ ملک کے تما م باشندوں کو امن ، چین اور سکون کے ساتھ زندگی گذارنے میں کوئی دشواری نہ ہو، اور تمام ہی لوگ آپس میں شیر و شکرکی طرح مل جل کر ملک کی ترقی کے لئے کام کر سکیں ۔
ہمیں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ دوسرے ملکوں کے لوگ کیا کر تے ہیں اور کیا نہیں کر تے ، دوسرے ملکوں میں جمہوریت ہے یا نہیں ، ہمیں اس سے کوئی سر و کار نہیں ، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہم خود کو کام کا بنائیں ، کام کریں ، حکمرانی اور ملک کی خدمت کا سلیقہ سیکھیں ، خود کو آئیڈئیل اور نمونہ بنائیں ، لڑائی سے ملک سدھرنے والا نہیں ۔ ہمیں جو موقع ملا ہے اسے غنیمت جا نتے ہوئے کچھ کام کریں ، باتیں نہ بنائیں ، صرف وہ کام کر یں جس سے ملک کا بھی بھلا ہو ، عوام کا بھی بھلا ہو تا کہ ہماری عزت بڑھے ہمارے ملک کی بھی عزت بڑھے اور لوگ ہمیں عزت کے ساتھ یاد کریں ۔ یاد رہے کا میابی کا م سے ہو تی ہے نہ کہ بس کلام سے ۔
قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ ، کمرہٹی، کولکاتا، ۵۸
موبائل :6291697668