ذکی نور عظیم ندوی-لکھنؤ
یہ خیال اکثر و بیشتر پریشان کرتا ہے کہ بعض اختلافی دینی مسائل میں اعتدال کا طریقہ کیا ہے؟ کیا کسی ایک یا چند ائمہ سے اعتقاد کی بنیاد پر دیگر تمام جلیل القدر ائمہ اور ان کی آراء کو سرے سے خارج کردینے اور ناقابل توجہ قرار دینے کا مزاج اور طریقہ درست مانا جاسکتا ہے؟ جب کہ عام طور پران سب کے علمی مرتبہ اور علو شان سے انکا ر یا کسی کی بھی شان میں گستاخی غیر معتدل بلکہ غیر اسلامی طرز فکر ہے۔ ایسی صورت میں کیا طریقۂ کار اختیار کیا جائے جس میں علمی غیر جانبداری بھی ہو اور اسلام کے اصل مراجع کی روشنی میں حق کی تلاش و جستجو میں کامیابی بھی اور کسی کی بھی شان میں بنا تحقیق و جستجو غلط نقطۂ نظراپنانے کے الزام سے بھی بچا جاسکے۔
اسی طرح کے مسائل میں حالت ناپاکی( بشمول حیض و نفاس) میں تلاوت قرآن کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے، خاص طور پر ماہ رمضان میں جس کا ایک اہم ترین امتیاز اس ماہ میں اس آخری کتاب ہدایت کا نزول بھی ہے،جس میں شب قدر یعنی نزول قرآن کی وہ شب بھی ہے جس کو ایک ہزار رات سے افضل اور بے شمار دیگر فضیلتوں کا سر چشمہ قرار دیا گیا ہے ،کہ ان دنوں خواتین کو ناپاکی کی حالت میں تلاوت قرآن اور اس کے ذریعہ بے شمار اجر وثواب کے حصول کی اجازت ہوگی یا اس کے لئے اس عظیم عمل کو حرام قرار دیا جائے گا؟
قبل اس کے کہ اس مسئلہ پر غور کریں آیئےیہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسلام اور اس کی تعلیمات کو سمجھنے کے معیار اور اصول کیا ہیں، شریعت اسلامی کے مطالعہ اور جائزہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام چند ’’مطلوبہ امور‘‘ کے کرنے اور بعض ’’ممنوعہ امور‘‘ سے باز رہنے کا نام ہے۔ وہ مطلوبہ امور جن کا ثبوت صحیح نصوص (قرآن و حدیث) میں واضح اور صریح طور پر ہو اور نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سے اس کے غیر لازمی ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو ،وہ امور دین اسلام کا لازمی اور بنیادی حصہ ہیں، جن کو ’’فرض‘‘ اور اس مفہوم کے دوسرے نام سے جانا جاتا ہے، ان کو بغیر شرعی مجبوری چھوڑنے کی اجازت نہیں، اور بلا عذر چھوڑنے پر گناہ اور سزا ہے۔
اور اگر ان مطلوبہ امور کے تعلق سے نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سے کچھ ایسے اقوال یا واقعات ثابت ہوں جس سے ان میں کسی طرح کی رعایت یا اس کے غیر لازمی ہونے کی کوئی دلیل ملے تو وہ عمل ’’مستحب‘‘ ہوگا ،جن کی انجام دہی پر ثواب لیکن نہ کرنے پر گناہ یا سزا نہیں۔
اسی طرح اگر کسی چیز کو چھوڑنے اور اس سے دور رہنے کا ثبوت صحیح نصوص (قرآن و حدیث) میں واضح اور صریح طورپر ہو اور نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سے اس سلسلہ میں کسی طرح کی رعایت یا اس کے کرنے کی کوئی دلیل نہ ملے تو وہ ایسے’’ممنوعہ امور‘‘ ہیں جن کو چھوڑنا اور ان سے باز آنا لازمی ہے، ان کو دین اسلام میں’’حرام‘‘ قرار دیا گیا ہے، بغیر کسی شرعی مجبوری اس کو کرنے کی اجازت نہیں اور ایسا کرنے پر گناہ اور سزا ہے۔ لیکن اگران منع کردہ امور کے تعلق سے نبی اکرمؐ اور صحابہ کرام سے کچھ ایسے اقوال یا واقعات ملیں جس سے اس میں کسی طرح کی رعایت معلوم ہو یا اس کے کرنے کے باوجود اس پر تنبیہ کی کوئی دلیل نہ ملے تو وہ ’’مکروہ‘‘ شمار کیا جائے گا، جس کے نہ کرنے پر وہ ثواب کا مستحق ہوگا اور کبھی کسی وجہ سے کرلینے پر گناہ یا سزا کا مستحق نہ ہوگا۔
اور اگر کسی چیز کے سلسلہ میں قرآن و حدیث کے نصوص میں صریح اور صحیح طور پر کوئی تذکرہ نہ ملے تو دیکھا جائے گا کہ اس کا تعلق معاملات سے ہے یا عبادات سے اگر معاملات سے ہے تو وہ عمل جائز ہو گا یعنی بندہ کو وہ عمل کرنے یا نہ کرنے دونوں کا اختیار ہو گا اور کرنے یا نہ کرنے دونوں صورتوں میں بذات خود ثواب یا عذاب نہیں۔ لیکن اگراس کا تعلق عبادات سے ہے تو اس کا کرنا جائز نہیں کیونکہ اسلام نے عبادات کو توقیفی قرار دیا ہے یعنی وہی امور عبادت کے طور پر کئے جا سکتے ہیں جس کے کرنے کا ثبوت قرآن اور حدیث کے نصوص میں صریح اور صحیح طور پر ہو۔
مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں حالت ناپاکی میں عورت کی تلاوت کے مسئلہ کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس سلسلہ میں کئی آراء ہیں جن میں اس حالت میں قرآن کریم کی تلاوت کا جائز نہ ہونا اتنا مشہور قول ہے کہ اس کے علاوہ دوسرے اقوال پر لوگ سخت حیرت واستعجاب محسوس کرتے ہیں حالانکہ اس سلسلہ میں ایک قول بغیر کسی شرط کے قرآن کریم کی تلاوت کے جواز کا بھی ہے۔
عدم جواز کے سلسلہ میں عام طور پر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جس طرح مرد حالت جنابت میں تلاوت نہیں کرسکتا اسی طرح عورت بھی حیض ونفاس کی حالت میں ناپاکی کی وجہ سے تلاوت نہیں کرسکتی ۔لیکن اگر غور کیا جائے تو دونوں صورتوں میں یہ فرق ہے کہ مرد کی ناپاکی وجنابت طویل وقتی نہیں ہوتی وہ غسل کرتے ہی پاک ہو سکتا ہے، جبکہ عورت کی ناپاکی حیض ونفاس کی صورت میں طویل مدتی اور کئی دنوں پر مشتمل ہوتی ہے جس سے چاہتے ہوئے بھی پاکی اس کے اختیار میں نہیں۔
اِسی طرح عدم جواز کے قائلین ترمذی کی اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں عورت اورجنبی مرد کو تلاوت قرآن سے منع کیاگیاہے لیکن وہ روایت ضعیف ہے اور کسی صحیح دلیل کے بغیر کسی عمل کو سرے سے ناجائز قرار دینا مناسب نہیں اور خاص طور پر جب اس سلسلہ میں دیگر معتبر اور جلیل القدر ائمہ کے اقوال بھی ہوں۔
اس سلسلہ میں مشہور دلیل قرآن کریم میں سورہ واقعہ کی آیت نمبر(۷۹) ہے جس میں کہاگیاہے کہ قرآن کو صرف پاک لوگ ہی چھوسکتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک خبریہ جملہ ہے جس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ لوح محفوظ میں قرآن کریم کو صرف پاک فرشتے ہی چھوسکتے ہیں۔ یعنی اس آیت سے ممانعت تلاوت کا حکم قطعی طور پر صریح نہیں ہے، اور کسی چیز کے ناجائز اور حرام ہونے کے لئے اس کا صریح طور پر صحیح دلیل سے ثبوت ضرور ی ہے۔
مذکورہ بالا شکلوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ عورت کی ناپاکی کی حالت میں قرآن کی تلاوت کے عدم جواز کے سلسلہ میں نہ کوئی صریح دلیل ہے اورنہ ہی صحیح ۔اس لئے اس سلسلہ میں دوسرے قول پر غور کرنے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہئے جس کے مطابق خواتین کے لئے حالت ناپاکی میں قرآن کی تلاوت جائز ہے ، کیونکہ بغیر دلیل اُسے حرام قرار دینا کیسے درست ہوسکتا ہے۔ اوراس وجہ سے بھی کہ اس قول کے ماننے والوں میں امام ابن تیمیہ اورعصرحاضر میں شیخ بن باز ،شیخ عثیمین اوربہت سے ایسے جلیل القدر اور معتبر علماء شامل ہیں ۔ لہٰذا ماہِ رمضان ،اُس کے آخری عشرہ اور خاص طور پر شب قدر کی راتوں میں خواتین کو تلاوت قرآن کریم کے ذریعہ اجروثواب کے حصول اور اللہ کے تقرب سے روکنے میں احتیاط بہتر کیوں نہیں؟