تحریر:-ریاض فردوسی
اناجیل اربعہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کو جمعہ کے دن صبح نو بجے صلیب دی گئی اور دوپہر تین بجے ان کا انتقال ہو گیا اور پھر فوراً انکو دفن کر دیا گیا اور اتوار کے دن صبح صادق وہ دوبارہ زندہ ہونے اور پھر اپنے حواریوں کے ساتھ کچھ دن گزارکر زندہ آسمان پر چلے گئے۔ عیسائیوں کے اس عقیدہ کو بالترتیب عقیدہ مصلوبیت (Crucifixion) عقیدہ حیات ثانیہ (Resurrection) اور عقیدہ رفع آسمانی (Ascension) کہتے ہیں۔ گڈ فرایڈے (Good Friday) عیسائیوں کے لیے اس معنی میں Good ہے کے یسوع مسیح کی یہ قربانی عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ (Atonement) ہے۔ اناجیل اربعہ میں مذکور ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک منافق حواری یہودہ (Judas Iscariot) یہودیوں سے چاندی کے چالیس سکوں کے عوض میں اسے رومن سپاہیوں کے ذریعہ گرفتار کرایا او ر یہودیوں کے حوالے کر دیا۔ یہودیوں کے عدالت میں High Priest نے حضرت مسیح علیہ السلام پر توحین ربانی (Blasphemy) کا الزام لگایا جب حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا تم لوگ دیکھو گے ایک دن ابن آدم (Son of Man) یعنی حضرت مسیح علیہ السلام خدا کے داہنی ہاتھ کے جانب بیٹھا ہوگا۔ اس کے بعد یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو رومن گورنر Pilate کو سپرد کرتے ہوئے ان پر جھوٹے الزامات لگائے کہ یہ شخص عوام کو رومی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے پر اکساتا ہے، لوگوں کو حکومت کو ٹیکس کی ادائیگی سے منع کرتا ہے، خود کو بادشاہ سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو خدا کا بیٹا (Son of God) کہتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام سے انکوائری کے بعد Pilate نے یہودیوں کے اکابر علماء سے کہا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف لگائے گئے سارے الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں اور وہ اسے بے گناہ قرار دے کر آزاد کر دیتا ہے لیکن یہودیوں کے شہر میں فتنہ و فساد کرنے کے ڈر سے اور خود کو رومن شہنشاہ سے ڈانٹ سننے کے ڈر سے Pilate یہودیوں کے مطالبہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کو اپنے سپاہیوں سے صلیب دے دیتا ہے۔
اس کے بعد یوسف اور نیکوڈیمس جو غالباً مسیحی تھے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کو یہودی مذہب کے رسم و رواج کے مطابق Golgotha کے مقام پر ایک چٹان کے بنے قبر میں جمعہ کے دن ٹھیک مغرب سے پہلے دفنا دیا۔ اتوار کے دن صبح صادق چند عورتیں حضرت مسیح علیہ السلام کے قبر پر پہونچتی ہے اور دیکھتی ہے کہ قبر کے اندر جانے کا راستہ کھلا ہوا ہے اور قبر سے حضرت مسیح علیہ السلام کا جسم غائب ہے۔ الگ الگ انجیل میں خالی قبر (Empty tomb) کی مختلف توضیحات کی گئی ہے۔ متی کے انجیل میں ہے کہ قبر میں موجود ایک فرشتہ نے، مرقس کے انجیل میں ہے کہ سفید لباس میں ملبوس ایک نوجوان نے، لوقا کے انجیل میں ہے کہ چمکتے قلباس میں ملبوس دو نوجوانوں نے اور یوحنا کے انجیل میں ہے کہ سفید لباس پہنے ہوئے دو فرشتوں نے عورتوں کو حضرت مسیح علیہ السلام کے قبر سے زندہ ہوکر جانے کی خبر دی۔ اناجیل اربعہ میں ان عورتوں کے تعداد میں تضاد ہے، یہاں تک کہ ان عورتوں کے نام بھی مختلف ہیں۔ متی، مرقس اور لوقا کے اناجیل میں Mary Magdalene جو ان عورتوں میں موجود تھی کو حضرت مسیح علیہ السلام کے حیات ثانیہ کی خبر دی گئی لیکن یوحنا کے انجیل میں ہے کہ Mary کو حضرت مسیح علیہ السلام کے حیات ثانیہ کی خبر نہیں دی گئی۔ وہ حواری پطرس کو یہ بتاتی ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کو قبر سے نکال کر چرا لیا اور کسی خفیہ جگہ میں چھپا دیا لیکن Mary کے اس بات میں صداقت نہیں ہے کیونکہ اگر یہودی حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کو چراتے تو حواریوں کے عقیدہ حیات ثانیہ کو غلط ثابت کرنے کے لیے وہ جسم کو پیش کر دیتے۔ اس طرح Mary کا یہ بیان یوحنا کے انجیل میں بالکل جھوٹ پر مبنی ہے۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ عورتیں حضرت مسیح علیہ السلام کے حیات ثانیہ کے واقعہ کی عینی گواہ نہیں ہیں یعنی ان عورتوں نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح علیہ السلام کو قبر سے اٹھ کر جانے کو نہیں دیکھا۔ انکا سارا بیان قبر میں پہلے سے موجود فرشتہ کے رپورٹ پر مبنی ہے، جو ناقابل یقین ہے کیونکہ ان کا بھی تعداد اناجیل میں مختلف ہے۔
حیات ثانیہ کے عقیدہ کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہودی یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ جس وقت رومن گارڈز (Roman guards) قبر کی حفاظت کے دوران سو گئے ،اس وقت حواریوں نے قبر سے حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم کو چرا کر لے گئے اور یہ افواہ اڑا دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف عیسائی حضرات حیات ثانیہ کے عقیدہ کے مدافعت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہودیوں نے رومن گارڈز کو رشوت دیکر خاموش کرا دیا کہ وہ حیات ثانیہ کے واقعہ کو کسی کو نہیں بتائے۔ اس طرح عیسائی اور یہودیی عقیدہ حیات ثانیہ کی دفع اور تردید کو لے کر ایک دوسرے پر الزام اور جوابی الزام لگاتے ہیں۔
اناجیل میں بار بار حضرت مسیح علیہ السلام پیغمبر یونس علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ پیشگوئی کرتے ہیں کہ وہ زمین کے اندر تین دن اور رات گزارئے گیں لیکن مصلوبیت کے بعد قبر میں وہ جمعہ اور سنیچر دو راتیں گزاریں اور اتوار صبح صادق ہی قبر سے اٹھ گئے تھے اس طرح تین دن اور تین راتوں کا عدد پورا نہیں ہوتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے مصلوبیت کا واقعہ اور پیغمبر یونس علیہ السلام کا مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا واقعہ میں کوئی مناسبت نہیں ہے کیونکہ یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ کے باہر اور اندر دونوں جگہ زندہ تھے اور جب مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے تب بھی زندہ تھے۔ ان کی موت واقع نہیں ہوتی تھی۔ جبکہ اناجیل کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام مصلوبیت کے بعد انتقال کر چکے تھے اور انہیں فوت شدہ حالت میں قبر میں ڈالا گیا تھا۔ لوقا کے انجیل میں یہ بات درج ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ ہونے کے بعد قریب چالیس دنوں تک اپنے حواریوں کے ساتھ رہے ،ایک ساتھ کھانا بھی کھائے ،لیکن اسی انجیل میں یہ بات بھی بیان ہے کہ دو حواریوں نے انہیں پہچان نہیں پائے اور یوحنا کے انجیل میں میری میگڈالین بھی انہیں نہیں پہچان پائی۔ یہ واقعات حیات ثانیہ کے واقعہ کو کمزور کرتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے حواریوں نے اس وجہ سے نہیں پہچان پائے کیونکہ حیات ثانیہ کے واقعہ کے بعد ان کی شکل و صورت میں کافی تبدیلی آ چکی تھی۔ حیات ثانیہ سے پہلے اور حیات ثانیہ کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام مختلف نظر آرہے تھے۔
اناجیل اربعہ میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو قبر سے دوبارہ زندہ ہوکر اٹھتے ہوئے کسی نے دیکھا ہو یہاں تک ان کے حواریوں نے بھی اس واقعہ کو ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ لیکن اس کے برعکس جب حضرت مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ازن سے مردوں کو زندہ کرتے تو لوگوں کی بھیڑ اس واقعہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی۔ بہرکیف ہم مسلمان ہیں۔ ہمیں قران مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام سے متعلق یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ’’ اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بیشک۔
اناجیل اربعہ کے علاوہ اور بھی روایتیں موجود ہیں جنہیں چرچ غیر مستند (Apocryphal) تسلیم کرتے ہیں جس میں مصلوبیت کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ برناباس کی انجیل میں کہا گیا ہے کہ خود یہودہ (Judas) حضرت مسیح علیہ السلام کا شکل و صورت اختیار کر لیا اور لوگوں نے اسے ہی صلیب پر لٹکا دیا۔ عیسائیوں کا ایک گمراہ فرقہ جسے Basilidians کہتے ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ Cyrene کا ایک شخص Simon کو خود عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی شکل میں بدل دیا اور اس کا شکل خود اختیار کر لیا اور لوگوں نے لاعلمی اور غلطی سے Simon کو صلیب دے دیا اور عیسیٰ علیہ السلام اس کے بغل میں کھڑا ہو کراس پر ہنس رہے تھے۔ Docete فرقہ کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا مصلوبیت صرف ظاہری تھا حقیقی نہیں تھا۔ پطرس کا انجیل میں ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر مصلوبیت کے درد کو محسوس ہی نہیں کیا۔ Acts of John کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام کا مادی وجود ہی نہیں تھا۔ ایک اور گمراہ فرقہ Marcionites نے تو عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ہی انکار کر دیا۔
حیات ثانیہ کا عقیدہ عیسایت سے پہلے رومن ایمپائر میں دیگر مذاہب میں بھی موجود تھا۔ قدیم مصری افسانہ میں Osiris مصر کا حکمران ہے اور Isis اسکی بیوی ہے۔Set اپنے بھائی Osiris کا حصول اقتدار کے لیے قتل کر دیتا ہے لیکن Osiris دوبارہ زندہ ہوتا ہے اور اسکی بیوی سے ان دونوں کا لڑکا Horus پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایشیا کوچک (Asia Minor) کے Phrygia میں ایک افسانہ مشہور تھا جس میں ایک خوبصورت نوجوان Attis کا کاسٹریشن (Castration) کی وجہ سے انتقال ہو جانا ہے لیکن تدفین کے دو دنوں بعد وہ دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے۔ مشہور مورخ ایچ جی ویلس (H ۔G Wells) کے مطابق سینٹ پال نے اپنے پیروکار کو اس عقیدہ سے تعارف کروایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام Osiris کی طرح ایک خدا ہے جو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوا اور انسانیت کو دائمی زندگی بخشا۔