افغان طالبان نے افغانستان میں جاری امن عمل میں پاکستان کی ’ڈکٹیشن‘ کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے واضح کیا کہ افغانستان میں رونما ہونے والی نئی سیاسی صورتحال میں اسلام آباد کی جانب مشوروں کا خیر مقدم کریں گے لیکن اس ضمن میں کسی بھی قسم کی کسی سے کوئی ڈکٹیشن ناقابل قبول ہوگی۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی قسم کی ہدایت قبول کرنا ہمارے قوانین کے خلاف ورزی ہے۔ایک سوال کے جواب میں سہیل شاہین نے امید ظاہر کی کہ ’ہم پاکستان کے ساتھ اچھےتعلقات کے خواہاں ہیں کیونکہ وہ ایک اسلامی برادر اور پڑوسی ملک ہے جبکہ ان کے ساتھ ہماری ثقافتی، مذہبی اور تاریخی اقدار مشترک ہیں‘۔علاوہ ازیں امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد پاکستان تحریک طالبان )ٹی ٹی پی) کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں سہیل شاہین نے واضح کیا کہ ’ہم کسی گروہ یا فرد کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ ہی ہماری پالیسی ہے‘۔افغانستان میں سے 20 برس بعد امریکی فوجیوں کےانخلا اور طالبان کے بڑھتے ہوئے کنٹرول کے تناظر میں کابل میں سیاسی کشیدگی پائی جاتی ہے۔اس سیاسی کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کی جانب سے متعدد مرتبہ اس بیان پر زور دیا گیا کہ وہ افغانستان میں امن چاہتا اور صرف عوامی کی خواہشات پر مبنی حکومت کو تسلیم کرے گا۔اگر افغانستان میں موجودہ صورتحال کی بات کی جائے تو طالبان نے وسطی افغانستان کے شہر غزنی کا گھیراؤ کر لیا ہے اور افغان سیکیورٹی فورسز سے لڑائی کے لیے شہریوں کے گھروں میں گھس کر مورچے بنا لیے ہیں۔یہ طالبان کا صوبائی دارالحکومت پر تازہ ترین حملہ ہے جہاں انہوں نے سیکیورٹی فورسز پر دباؤ مزید بڑھاتے ہوئے شہر کا گھیراؤ کر لیا ہے کیونکہ غیرملکی افواج کے جانے کے بعد ان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا نے خاموشی سے بگرام ایئربیس خالی کردی تھی جبکہ پینٹاگون نے کہا تھا کہ امریکی فوج کا 90 فیصد انخلا مکمل ہوچکا ہے۔یاد رہے کہ امریکا سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ایک معاہدے کے تحت افغانستان سے انخلا پر راضی ہوا تھا اور جو بائیڈن نے بھی ان فوجی رہنماؤں کی توقعات پر پانی پھیر دیا تھا جو افغانستان میں فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے کے حامی تھے۔افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر نے خبردار کیا تھا کہ ملک خانہ جنگی کی جانب جاسکتا ہے۔