دسمبر کی شدید ترین سردی ہو یا جولائی کی تیز دھوپ، وادیٔ کشمیر میں کمر توڑ مہنگائی کی مار عوام کو ہر موسم میں جھیلنی ہی پڑتی ہے کیونکہ زندگی کی روزمرہ ضروریات کی حصولیابی کی خاطر عوا م کو بازاروں کا رُخ کرنا ہی پڑتا ہے جہاں سرکاری نرخ ناموں کو یہاں کے دوکاندار صاحبان بالائے طاق ہی رکھتے ہیں۔ سبزی، گوشت، مرغ، انڈے، دالیں، مصالحہ جات وغیرہ کی قیمتوں سے متعلق سرکار کی جانب سے مشتہر کئے گئے نرخ ناموں کو ہر ہمیشہ طاق نسیان پر ہی رکھا جاتا ہے جس کو یہاں کے دوکاندار شاز ونادر ہی خاطر میں لانے کی سعی کرتے ہوں گے۔ وادی میں ان مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کوبس آسمان پر بادل منڈلاتے دکھنے چاہیے تو ایسے میں اُن کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ صبح کی دھوپ کے بعد دوپہر کو اگر ہلکے سے بادل آسمان پر گرجنے شروع ہوجاتے ہیں تو یہاں کے سبزی فروش اُسی حساب سے اشیاء کی قیمتیں اپ ڈیٹ کرتے ہیں اور یوں عوام کو دو دو ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔ محکمہ اُمورصارفین و عوامی تقسیم کاری کی جانب سے جو ریٹ لسٹ مشتہر کیا جاتا ہے اُسے یہاں کے تاجران ردّی کی ٹوکری کی نظر کرتے ہیں اور جہاں کسی دوکان پر ریٹ لسٹ مشتہر پایا جاتا ہے تو وہ برائے نام ہی ہوتا ہے جس پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ماہ رمضان کے ان بابرکت ایام میں میں اس کمرتوڑ مہنگائی میں کوئی کمی ہوتی نظر نہیں آتی ہے۔ اسے المیہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ غیر مسلم اقوام جب بھی اپنے تہوار منانے کے قریب ہوتے ہیں تو وہ مختلف نوعیت کے آفر صارفین کو پیش کرتے ہیں۔ بات دیوالی کی ہو، ہولی کی ہو، دسہرہ کی ہو یا کسی اور تہوار کی، غیر مسلم قوموں میں یہ روایت رہی ہے کہ وہ ان تہواروں سے قبل صارفین کیلئے بڑی رعایت رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے یہاں جوں ہی رمضان المبارک، عید الفطر یا عید الاضحی کے دن قریب آجاتے ہیں، بازاروں میں مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر بڑی ڈھٹائی کیساتھ سرگرم ہوجاتے ہیں اور یوں سادہ لوح صارفین کو انتظامیہ کے ناک کی سیدھ میں دو دو ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے جس پر آج تک شاید ہی کوئی قانونی کارروائی کی گئی ہو۔گوشت ہی بات کیجئے، رمضان المبارک شروع ہونے کیساتھ ہی یہاں کے قصابوں نے گوشت 700روپے فی کلو فروخت کرنا شروع کردیا ہے جو کہ کسی سے مخفی نہیں ہے لیکن حکام ایسے قصابوں کیخلاف کارروائی کرنے میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ محض شہر کے مہاراج پازار اور ہری سنگھ ہائی سٹریٹ میں نمودار ہوکرمحکمہ اُمور صارفین و عوامی تقسیم کاری کے چیکنگ اسکوارڈ اخبارات کیلئے فوٹو کھنچوانے کیساتھ ہی یہ غائب ہوجاتے ہیں۔ یہاں کا عوام بھی محکمہ کی ان سرگرمیوں پر حیران و پریشان ہے کیوں کہ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آیا یہ محکمہ جس کام کیلئے وجود میں لایا گیا ہے وہ کام زمینی سطح پر انجام کیوں نہیں دیا جارہا ہے۔اگر واقعی طور پر محکمہ اُمور صارفین اپنی منصبی ذمہ داری کا احساس کرکے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے کمر کس لے تو بازار میں کسی کی کیا مجال کی سرکاری ریٹ لسٹ کو نظر انداز کرکے خود اشیائے ضروریہ کی قیمتیں متعین کرے۔ بالکل نہیں! یہاں بس اگر کسی پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ محکمہ اُمور صارفین کے اعلیٰ حکام ہے جنہیں گہری نیند سے جاگنے کی ضرورت ہے۔