تحریر : حمیرا فاروق
آجکل کا انسان ہر سمت سے اگر دیکھا جا تو سکون سے عاری ہیں۔ کسی کو مال ودولت ، صحت ،کسی انسان کے نہ ملنے پر اور کوئی اولاد کی محرومی کی وجہ سے تو کوئی دوسروں کو خوش دیکھ کر یا اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو انکے پاس دیکھکر پریشان ہوکر بے سکون ہوجاتا ہے ۔ یہ چیز ہمارے اور ہمارے معاشرے کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہیں ۔ کیونکہ یہ سب خامیاں ایمان کی کمزوری کی نظیر ہیں ۔اگر انسان کو ایمان کی تقویت حاصل ہوتی تو کبھی بھی آج ہر ایک کے منہ سے لفظ "بے سکونی” نہیں سننا پڑھتا ۔ جہاں بھی ہم جاتے وہاں سے یہی سوال ہوتا ہے کہ کہی سکون ہی نہیں ۔ اس بات پہ کوئی فکر وتدبر نہیں کرتا کہ آخر ایسا کیوں؟دنیا میں آج تک کوئی انسان پیدا ہی نہیں ہوا جس پر کوئی رنج و غم اور مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ یہ دونوں زندگی کا ایک حصّہ ہے۔ اس دنیا میں انبیاء بھی ان مصائبوں سے نہ بچ سکے بلا ہم عام انسانوں کی تو بات نہیں ۔دنیا جس کے لیے بنائی گیی اسکو یہاں اتنی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا تاریخ اس کی گواہ ہے ۔ اگر یعقوب (ع) کو دیکھیں تو انکو اپنے بیٹے کی فراق میں ک بینائی تک چلی گیی ،ایوب(ع)کو علالت کی وجہ سے بدن پر کیڑے پڑے پھر بھی رب سے شکوہ نہ کیا حالانکہ گھر والوں نے بھی اسکا ساتھ چھوڑا لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور مصیبت سے چٹھکارہ نصیب ہوا۔ دراصل یہ انکے اندر قوت ایمان کا تقاضہ تھا جسکے بل بوتے پر انہوں نے کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڈا ۔آخر کار انکو سکون اور شفا یابی حاصل ہوئی جسکے وہ طلبگار تھے ۔ اللہ تعالی نے ہر مشکل کے بعد آسانی ضرور لکھی ہوئی ہوتی ہے حالات کبھی ایک جیسے نہں رہتے بلکہ انکا کچھ مدت بعد انتقال ہوتا ہیں ۔ انسان کو زیست میں کوئی بھی آزمائش درپیش آ تو اسوقت یاد رکھنا چاہے کہ کوئی چیز رہنے والی نہیں ماسو اللہ کی ذات کے ۔
کبھی کبھار انسان اپنے لیے اس چیز کو چاہتا ہے جو اسکو نہیں ملتی تو انسان اسی چیز کو لے کر اللہ تعالیٰ سے شکوہ شکایتیں کرنے لگتا ہے ۔حالانکہ اللہ تعالی کے خزانے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اگر وہ بندے کو دے گا لیکن وہ اسلیے نہیں دیتا کیونکہ اسمیں اسکی خیر نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے سب سے زیادہ محبت و عزّت کرتا ہے اسلیے وہ اسکو اس چیز سے محروم کر دیتا ہے۔
انسان کو ہر چیز کی چاہت اعتدال میں رکھنی چاہے کیونکہ حد سے زیادہ چاہت انسان کو گمراہ بنا دیتی ہے ۔ انسان کبھی اسکی وجہ سے انسانیت سے گر کر حیوان بن جاتا اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمان اور شیطانی وسوسوں کے مرتکب ہوجاتے ہیں ۔ کچھ چیزوں کا زیادہ ہونا زہر کا باعث بن جاتا ہے ۔ یاد رکھنا ما سوا اللہ کوئی وفا نہیں کر سکتا اور نہ آپکو کوئی وہ عطا کرسکتا ہے جو وہ کر گا ۔ زندگی میں کسی انسان کے پاس کوئی اچھی چیز ہوگی تو اسے حسد کرنے کے بجا اللہ سے دعا کریں کہ اگر یہ چیز میرے لیے باعث خیر ہے تو عطا کر ورنہ تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اگر انسان ااسکے برعکس منفی سونچ رکھتا ہوتو انسان کا زوال یہی سے شروع ہونے لگتا ہے ۔پھر تو کبھی بھی وہ سکون وراحت کی زندگی نہیں گزار پاتا ۔ چاہے اسکے پاس پھر عیش و عشرت اور مال و دولت کی فراوانی ہی کیوں نہ ہو ۔ جب انسان کی نیت میں کھوٹ اور ہوس کا بھوت سوار ہوجا تو پھر وہ حلال و حرام کا راستہ نہیں دیکھتا کیا ٹھیک اور کیا غلط ہے اسکی کوئی پروہ نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کرکے کچھ مدت کے لیے اپنے نفس کو محظوظ کرتا ہے ۔ وہ حلال طریقوں کو چھوڑ کر حرام کی راہ اختیار کرتا ہے ۔ مگر جو انسان انسانیت کے اعلی درجے پر فائز ہوگا وہ کبھی ان چیزوں کا مرتکب نہیں ہوگا کہ وہ اپنے وقتی فائدے کے لیے لوگوں کا غلط استعمال اور وقتی سکون حاصل کریں ۔ ہم خواہشات میں اپنا سکون تلاش کرتے ہیں جسکا صلہ تباہی و ذلت کے ماسوا کچھ نہیں ۔
اگر انسان کسی بھی چیز کی دل میں تمنا کریں لیکن شرط یہ کہ وہ جائز ہواسکے لیے تو میرے خیال سے جس انسان کو اللہ تعالیٰ پر جتنا کامل یقین اور نیت میں خلوص ہوگا اتنی جلد اسکی دعا رب ﷻ اپنی بارگاہ میں قبول فرماتے ہیں ۔ ہوس ،بغض ،حسد ،لالچ دلوں میں پایا جاۓ تو انسان خیر سے بھی محروم اور سکون سےتو لازما عاری ہوگا ۔ کیونکہ وہ خود کو بھول کر دوسروں کی فکر میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے ۔ جسکی وجہ سے وہ ناشکرہ بندہ بھی بن جاتا ہے ۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ "حسد اعمال کو ایسے جلاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو جلا کر راکھ کرتا ہے ۔ لہذا کسی پہ حسد کرنے کے بجا رب کا شکر ادا کرؤ تو وہ آپکو بھی ان انعامات سے نوازے گا جن کو ہم لوگوں کو دیکھکر تمنا کرتے ہے ۔ چاہے پھر وہ رزق کا معاملہ ہو یا کچھ اور اللہ تعالیٰ سے مانگو وہ ضرور عطا کرے گا ۔
انسان اپنے لیے بہت خودغرض بنتا ہے دوسروں کو اسکی وجہ سے کوئی بھی دکھ پہنچے اسکی پروہ نہیں کرتا اور اپنے مطلب کے خاطر کسی بھی حد تک گر کر اسوقت قواعد و ضوابط کی پیروی کرنا چھوڈ دیتا ہے یہ بھی بےسکونی کا سبب بن جاتا ہے ۔ انسان دنیا میں جہاں بھی اپنا سکون ڈھونڈنے نکل جاۓ اللہ کا ذکر کیۓ بغیر کسی بھی چیز میں دائمی سکون نہیں مل سکتا ۔ نہ کسی انسان کو ملنے سے نہ دولت کے پانے سے اور نہ اولاد کے ملنے سے کبھی سکون ملتا ہے ۔ سکون جس چیز میں مفقود ہے وہ اللہ کو یاد کرنے میں اور اسکی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں پایا جاتا ہے ۔ ایک صاحب عقل انسان ایک تو خود بھی سکون میں رہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ بات کرکے انکو بھی خوش کرتا ہے کیونکہ وہ احکام و قوانین الہی کو جانے اور مانے والا ہوتا ہے ۔ ان سب چیزوں کے لیے انسان کو واقف ہونا لازمی ہیں ورنہ انسان نہ جانے کتنے گناہوں کا شکار ہوگا ۔ اس چیز کےلیے ہم سب کو چاہیے کہ بے سکونی کی وجہ تلاش کریں کہ آخر بے سکونی کیوں؟ کہی ہم غلط تو نہیں کر رہے ہیں یا کسی کا حق تو نہیں مار رہے یا خاص کر سب سے بڑی وجہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وعدہ خلافی تو نہیں کر رہے جو ہم میں سے ہر روح نے اسکے ساتھ کیا ہوا ہیں ۔ لہذا دوائی ، پیروں فقیروں کے بجاۓ اسباب تلاش کریں اور فکر و تدّبر کرکے ذہنی و قلبی سکون حاصل کریں ۔ اس سکون کو انسانون اور مال و دولت اور دوسروں کی خوشیاں چھینے میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے متلاشی بننے کی کوشش کریں تاکہ ہمارے ساتھ دوسروں کی بھی زندگی اس بے سکونی کی وبا ءسے بچ جا جس نے آجکل لوگوں کو پریشان کر رکھا ۔ الغرض اسکی سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو جو دیا وہ اس پہ خوش نہیں بلکہ ناشکرہ ہیں اسیلے بے سکونی عوام میں پائی جاتی ہیں ۔اس سے بچنے کے لیے انسان کی کوشش مطلوب ہے ۔ بس زرا غور کرنے کا مقام ہے ۔