موجودہ حالات و واقعات ہمیں زما نے کی گردش کا پتا دے رہی ہے اور عالمی صورت حال ہمیں سبق بھی دے رہی ہے کہ اسلام کے ما ننے والوں کے لئے ساری دنیا میں اب دوسروں پر انحصار کرنا نا ممکن ہو چکا ہے ، دوسروں سے لو لگائے رہنا کہ وہ آئے گا اور ہماری مدد کرے گا، ہمارا دفاع کرے گا اور ہمارے جان و مال، دین و ایمان کی حفاظت کریگا، بالکل فضول ہے ۔ ہم اب اپنے جان و مال ، دین و ایمان ، عقیدے و شعائر کی حفاظت اُسی وقت کر سکتے ہیں جبکہ ہمارے اندر خود اس کی قوت و صلاحیت ہو ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی قوم سے احساس اور خود اعتمادی ختم ہو گئی وہ زوال پذیر ہو گئی ۔ آج عالمی سطح پر قوم مسلم کا حال بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے ، آج قوم مسلم کا دانشور طبقہ بھی احساس کمتری کا شکار ہے ، خود اعتمادی سے محروم ہو چکا ہے اور یہی وجہہ ہے کہ حالات روز بروز ابتر ہو تے جا رہے ہیں ۔ مسلم ممالک کے حالات پر طائرانہ نظر بھی ڈالی جا ئے تو صاف نظر آتا ہے کہ سارے وسائل اور ذرائع کی مو جود گی کے با وجود وہ استحکام سے محروم ہیں ، وہ خود کو مغربی سامراجیت کے آگے سرنگوں سمجھتے ہیں اور مغربی ممالک اپنی طاقت سے انھیں مر عوب کر نے کا کوئی مو قع ہاتھ سے جا نے نہیں دیتے ۔ آج خطہ عرب میں جو انتشار روبے چینی نظر آتی ہے وہ اسی احساس کمتری کے با عث ہے ، حالانکہ وسائل کے معاملے میں مسلم دنیا کسی بھی سطح پر کمتر نہیں ، لیکن کہیں طاقت کے زور پر تو کہیں نظریاتی حربوں کے ذریعہ سامراجی طاقتیں ملت کا شیرازہ بکھیر رہی ہیں اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ سامراجی طاقتیں عرب ممالک کے قیمتی اثاثوں سے بھی استفادہ کر رہی ہیں بلکہ ان پر ایک طرح سے اپنا قبضہ جما ئے ہو ئے ہیں ۔ بات صرف خطہ ، عرب تک ہی محدود نہیں بلکہ اکثر اسلامی ملکوں میں بھی حالات کم و بیش وہی ہیں اور ان میں اتنی ہمت و سکت نہیں کہ ملت کے لئے کسی حق بات کی آواز بلند کر سکیں ۔
جس قوم نے دنیا کو زندگی کے معنی بتا ئے ، جس قوم نے زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے زرین کارناموں کے ذریعہ تاریخ کے ابواب بھر دئیے آج خود کو مفلوک الحال اور مجبور محسوس کر نے لگی ہے ۔ یہ ہمارا احساس کمتری نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا ہم خود اعتمادی سے محروم نہیں ہو گئے ہیں ؟ یقینا یہ ہماری دانشورانہ فکر کا بحران ہی ہے جو کہ ہمیں اس قدر تنزلی کا شکار بنا دیا ہے ، ہم نے اپنی اصل کو ، اپنی حقیقت کو فراموش کر دیا ، انفرادی فوائد کی خاطر اس قدر خود غرض ہو گئے کہ اسلا م کی اجتما عیت اور اس اجتما عیت کی طاقت سے ہی محروم ہو گئے ۔ ملت کی زبوں حالی کے لئے صرف اغیار کو ہی دوش نہیں دیا جا سکتا اس کے لئے ہم خود بھی برابر کے بلکہ ان سے بھی زیادہ ذمہ دار ہیں کیونکہ ہمیں بحیثیت مسلمان داعی کا کردار ادا کر نا تھا ، دنیا کو راستہ دکھانا تھا لیکن افسوس کہ اپنا ہی راستہ بھول گئے اور تباہی کے دہا نے پر پہنچ گئے ۔
آج قوم مسلم کے زوال کی بڑی وجہہ تعلیم سے دوری بھی ہے، آپ غور کریں تو آپ کو اس بات کا اندازہ ضرور ہو گا کہ آج مغربی تہذیب جام عروج پر اور مسلمان زول پذیر ہیں ، اسلام نے علم حاصل کر نے کی جتنی تلقین کی اتنی کسی اور مذہب نے نہیں کی ۔ مسلمانوں نے جب تک علم سے دوستی رکھی دنیا کے تخت و تاج ان کے قدموں میں رہے اور جب انھوں نے علم کی چھوڑا تو دنیا کے سامنے رسوا ہو رہے ہیں ۔ جب تک ہم اس میراث کے امین تھے تو ہمارے یہاں ابن سینا ، الزاری ، البیرونی ، الخوارزی اور جابر بن حیان جیسے عظیم لوگ جنم لیتے رہے ، یورپ اور مغرب کے طلبا ہماری درس گاہوں میں آکر علم حاصل کر تے رہے ، جس وقت دنیا میں جہالت کی تاریکی پھیلی ہوئی تھی اس وقت صرف مسلمان علم و آگہی کا نور پھیلا تے رہے ۔ آج بھی اگر کسی بھی علم کی تاریخ کو اُٹھا کر دیکھا جا ئے تو اس کے آغاز سے پھوٹتی تحقیق پر مسلمان کا ہی عکس نظر آئے گا ۔ ابن الہشیم کے ریاضی سے لیکر بو علی سینا کی طب تک کوئی ایسا میدان نظر نہیں آتا جس میں مسلمانوں نے اپنی کار کردگی نہ دکھائی ہو۔ بہت کچھ مسلمانوں کی ایجادات ہیں جن سے آج دنیا مستفید ہو رہی ہے اور دوسری قوتوں پر حکمرانی کر رہی ہے ، تو سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ سب کچھ بنا نے والی قوم اس وقت کیوں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ؟ آج پوری دنیا میں صرف مسلمانوں پرہی مشکلات کیوں آئی ہو ئی ہیں ؟ اگر دنیا کی ابتدا سے لے کر آج تک تاریخ پر نظر ڈالیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ آج تک جس قوم نے علم کو اپنا زیور سمجھا انھوں نے ترقی کی اور با قی دنیا اس کے قدموں تلے آئی ۔ ہم ایسے دور سے گذر رہے ہیں جہاں ہر طرف دھوکہ اور فریب کا دور دورہ ہے ، ہر شخص اپنی فراک میں مشغول ہے ، وہ نوجوان جن پر ہمارے قوم کا انحصار ہے ، ہماری امیدوں ، امنگوں اور خواہشات کا مر کز ہیں ، علم کے بغیر آج ان کا مستقبل تاریک ہے ، کاش ہم جا نتے کہ جس قوم کی ترقی کا دارو مدار اس کی تعلیم پر ہو تا ہے اور اگر قوم تعلیم یافتہ ہے تو دنیا کی کوئی قوم اس کی ترقی کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی ۔ دنیا کی ترقی یا فتہ قومیں تعلیم سے ہی اپنی اہم ترین مقاصد حاصل کر رہی ہیں ،ا گر ہمیں دنیا کا مقابلہ کر نا ہے تو تعلیم پر بھر پور توجہ دینا ہو گی۔
قارئین محترم ! دنیا کے ہر مسلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہو تا ہے ۔ در حقیقت یہ دور ِ انقلاب کا ہے اور انقلاب آسکتا ہے تو صرف اور صرف بذریعہ تعلیم کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسا شعبہ ہے جس کے ذریعے انقلاب کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے ۔ ایسے میں ضرورت ہے تو اس بات کی کہ قوم مسلم اپنی فراموش کردہ حقیقت کو جا نے،اپنے سوئے ہو ئے احساس کو جگائے ، احساس کمتری کے خول سے باہر نکلے ۔کیونکہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے اور امن پیامبر ہے ، دنیا میں قیام امن اگر کسی صورت ممکن ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور اس مشن کو مسلمان ہی کا میابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں ۔ آج کے حالات میں یہ مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے احساس کمتری کو ختم کیا جا ئے ۔ ملت میں دانشورانہ سوچ کو فروغ دیا جا ئے ، اپنی قوم کے ہر فرد خواہ عورت ہو یا مرد سب کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا ئے ۔ اور یہ کام ملت کے ہر ذی شعور فرد کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرنا ہو گا تب ہی ایک انقلاب آسکتا ہے اور قوم مسلم اپنا کھویا ہوا وقار پا سکتی ہے ، خود اعتمادی ، احساس اور تعلیم ہی ہماری کا میابی کی ضمانت ہے ، بصورت دیگر ہم دنیا کی تاریخ کا ایک بھولا ہوا باب بن جا ئینگے ۔
قیصر محمود عراقی
کریگ اسٹریٹ ،کمرہٹی، کولکاتا، ۵۸
موبائل :6291697668