الطاف حسین جنجوعہ
قول و فعل کا تضاد ہمارایک بڑا مسئلہ ہے۔ ہم بہت سی نصیحت آموز اور اچھی اچھی باتیں ضرور کرتے ہیں، لیکن ان باتوں پر خود عمل نہیں کرتے۔ عملی زندگی میں اِن اچھی اچھی باتوں کا اثر ہماری اپنی ذات پر کہیں دور دور تک بھی دکھائی نہیں دیتا۔ ہر اچھی بات ہم صرف دوسروں کے عمل کے لیے بیان کرتے ہیں اور خود اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ ہمارے ہاں شاید نصیحت کرنے کا عام رواج ہے، لیکن عمل کے آگے قفل ہیں۔ یہی قول و فعل کا تضاد ہے۔
ہمارے قول و فعل میں تضا د کتنا ہے
مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتقاد کتنا ہے
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج یہ کس موضوع پر فلسفیانہ بحث چھیڑ لی۔ دراصل اس وقت جموں وکشمیر میں نیا تعلیمی سال شروع ہے۔ داخلہ عمل جاری ہے ۔ اس لئے سرکاری وپرائیویٹ اسکول موضوع بحث ہیں، جہاں قول وفعل میں تضاد بہت زیادہ نظر آرہا ہے، اس لئے ہم نے بھی اِسی پر کچھ الفاظ صفحہ قرطاس پر اُتارنے کی جسارت کی۔ محکمہ تعلیم کی طرف سے سرکاری اسکولوں میں داخلہ کے لئے اندراج مہم چلائی جارہی ہے ۔گاؤں گاؤں، محلہ، گلی میں بیداری ریلیاں نکالی جارہی ہیں، پبلک اسپیچ ہورہی ہیں۔ اُساتذہ بتارہے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں تعینات ٹیچرز زیادہ کوالیفائیڈ ہیں، حکومت مفت وردی، مفت کتابیں، اسکالرشپ اور دوپہر کا کھانا دے رہی ہے ، لہٰذا آپ(والدین)بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کریں۔بہت اچھی بات ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کیونکہ سالانہ اربوں روپے خزانہ عامر ہ سے شعبہ تعلیم پر خرچ ہوتے ہیں۔ سرکار کی طرف سے اُساتذہ کو اچھی خاصی تنخواہ دی جاتی ہے، دیگر سہولیات بھی دستیاب ہیں۔مطلوبہ ڈھانچہ بھی قدربہتر سے بہتر ہوتا جارہا ہے۔ صرف آپ گاؤں یا پنچایت کاہی مشاہدہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اوسطاًہرگاؤں میں سات سے آٹھ سرکاری اسکول ہیں جن میں درجنوں ٹیچر تعینات ہیں اور ماہانہ آٹھ سے دس لاکھ روپے حکومت اُن کو تنخواہ دیتی ہے۔صرف اِس مقصد کے لئے کہ وہ معمار ِ قوم تیار کریں۔
لیکن اِس اندراج مہم کو لیکر ہمارے قول وفعل میں تضاد ہے۔ وہ تضاد یہ کہ بیشتر سرکاری ملازمین کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔درجہ اول سے لیکر آٹھویں کلاس تک 95فیصد سے زائد سرکاری ملازمین کے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ نویں تا بارہویں تک یہ تعداد 70سے75فیصد ہے ۔ اُس کے بعد ملازم پیشہ والدین کی پوری کوشش ہوتی ہے گریجویشن میں سرکاری کالجوں سے ہو، اس لئے یہ تعداد گھٹ کر 35سے40فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ یونیورسٹی سطح پر تو پی جی سرکاری یونیورسٹی سے کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاتے ہیں۔
اگر سرکاری اُساتذہ اِتنے کوالیفائیڈ ہیں تو پھر اُنہیں اپنے اوپر اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد کیوں نہیں، وہ اپنے بچوں کو درجہ اول سے آٹھویں تک سرکاری اسکولوں میں کیوں نہیں پڑھاتے۔ کیوں کوالیفائیڈ سرکاری ٹیچر پرائیویٹ اسکولوں میں انڈرگریجویٹ اور بارہویں پاس ٹیچر سے اپنے بچے کو ہی پڑھانے کو ترجیحی دیتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ؟
ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اس خصوصی اندراج مہم (Enrolment Drive)میں سرکاری ملازمین سے بھی کہاجاتا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کریں۔ تبھی تو اُساتذہ کرام جو تقاریر کریں گے اُس کا فوری اثر عام والدین پر ہوگا، وہ بھی بغیر سوچے فوری طور اپنے بچوں کا داخلہ شوق سے کریں گے لیکن ایسا نہیں۔ ہاں ایسے سرکاری ملازمین ہیں جنہوں نے آبائی گاؤں میں اپنے بچوںکا داخلہ سرکاری اسکولوں میں کرا رکھا ہے لیکن اُن کے بچے در اصل جموں، سرینگرشہرؤں یا دیگرقصبہ جات میں نامی گرامی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ایسا صرف اس لئے تاکہ کل اُن کی ریزرو کٹاگری ALC/RBA/OBC/PSPسرٹیفکیٹ لینے میں کوئی دقت نہ درپیش آئے۔اس اندراج مہم کے دوران کئی مقامات پر غریب والدین نے احتجاج بھی کئے ہیں کہ دھوکے سے اُن کے بچوں کے آدھار کارڈ وغیر ہ لیکر اُن کا نام سرکاری اسکولوںمیں داخل کر دیاگیا ہے جبکہ وہ تو اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھارہے ہیں۔ اس دھوکہ دہی کی وجہ سے اب نجی تعلیمی ادارے کہتے ہیں کہ وہاں سے نام کٹوا کر آؤ۔
محکمہ اسکول تعلیم کی جاری انرولمنٹ ڈرائیو کا عام لوگ یہ کہہ کر مذاق اُڑا رہے ہیں کہ یہ صرف ایک نمائش ہے جس کا عملی طور اُ س وقت تک کوئی اثر پڑنے والا نہیں جب یوٹی انتظامیہ کی طرف سے باقاعدہ ایک حکم نامہ جاری نہیں ہوتا کہ تمام سرکاری ملازمین بھی اپنے بچوں کو گورنمنٹ اسکولوں میں داخل کریں اور سرکاری اُساتذہ کیلئے خاص طور سے یہ لازمی قرار دیاجائے ۔ ایسا حکم نامہ صرف موجودہ لیفٹیننٹ گورنر قیادت والی یوٹی انتظامیہ میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ بصورت دیگر ایسا ممکن نہیں کیونکہ چند سال قبل ایک ایم ایل اے نے اسمبلی میں ایک پرائیویٹ ممبر بل لایاتھاکہ سرکاری ملازمین پر یہ لازمی قرار دیاجائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کریں مگر کسی نے بھی اُن کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ بیروکریسی نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دی تھیں۔ یہ اندراج مہم تبھی کامیاب تصور کی جائے گی جب سرکاری اُساتذہ یہ مثال دیکر والدین کو قائل کریں گے کہ میرا بچہ بھی گورنمنٹ اسکول میں داخل ہے ، آپ بھی داخلہ کریں۔ کرپشن بھی سرکاری اسکولوں کے زوال کی وجہ ہے۔کرپشن مطلب کہ اُساتذہ کا اپنے فرض منصبی کو صحیح انجام نہ دینا یعنی کام چوری بھی ہے۔ سرکارنے بائیومیٹرک اور لوکیشن حاضری نظام متعارف کر کے سرکاری اسکولوں کو اداروں کے اندر پابند تو کیا ضرور کیا مگر اُن کا زیادہ وقت مہنگے سمارٹ فونز میں دن بھر نیٹ سرفنگ کرتے گذرتا ہے۔جن کی ڈیوٹی اپنے گھروں کے نزدیکی اسکولوں میں ہے، اُنہوں نے تو اِس کا بھی حل نکالا ہے کہ صبح بائیومیٹرک حاضری لگاکر واپس گھر آجاتے ہیں اور پھر شام چاربجے دوبارہ چلے جاتے ہیں، انگوٹھا لگانے۔
سرکاری تعلیمی کی جو حالت ہے اُس کے لئے صرف اساتذہ ہی ذمہ دار نہیں بلکہ والدین بھی ہیں، اول تو ہمیں سرکاری اسکولوں پر اعتماد بھروسہ کرکے اپنے بچوں کو داخل کرنا ہوگا، پھر اُس پر نظر بھی رکھنی ہوگی، ہفتے میں، پندرہ روز، ماہانہ اسکولوں کا دورہ کریں، اساتذہ کے ساتھ رابطہ میں رہیں۔ جو والدین سرکاری اسکولوں میں بچوں کو داخل کرتے ہیں وہ پھر اُن کو مکمل طور حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے ہیں، خود اُس کی مانیٹرنگ نہیں کرتے۔
اب بات کچھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی۔ سرکاری اسکولوں میں معیار ی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہرکوئی اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرنے پر مجبور ہے کیونکہ کوئی بھی اپنی اولاد کی تعلیم سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیںمگر اُن کی اسی مجبوری کا فائیدہ اُٹھاکر پرائیویٹ اسکولوں میں لوٹ کھسوٹ بھی جاری ہے۔ پرائیویٹ اسکول نے ایک مافیا کی صورت اختیار کر لی ہے جو اپنی من مرضی چلا رہے ہیں۔ اپنی ہی شرائط مقرر کر رکھی ہیں۔ کتابوں،کاپیاں ودیگر اسٹیشنری، وردیوں، داخلہ فیس اور ٹیوشن فیس کے نام پر والدین کو خوب نچوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کچھ تعلیمی اداروں میں تو خود ہی وردیاں، کتابیں، کاپیاں وغیرہ خریدنا داخلہ کی پہلی شرط ہے تو کہیں مخصوص دکانوں سے یہ خریداری کرنے کو کہاجارہا ہے۔ انتظامیہ کا اِس پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آرہا۔محض کاغذی خانہ پوری کے لئے آرڈر تو نکلتے ہیں لیکن اِن پر عملدرآمد ندراد ہے۔ اُس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کچھ بڑے صنعتکار، کاروباری، بیروکریٹس اور سیاسی لیڈروں کے بھی پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں۔ اُن کیخلاف کوئی کارروائی کی جرئت نہیں کرتا۔جموں ضلع کے اندر ایک اندازے کے مطابق 1000سے زائد تعلیمی ادارے ہیں۔باقی اضلاع کا بھی آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نجی تعلیمی اداروں نے خواندگی میں اہم رول ادا کیا ہے لیکن اِس نے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مافیا کی صورت بھی تو اختیار کر لی ہے ۔ سرکاری شعبہ تعلیم میں معیار ِ تعلیم کافقدان دن بدن نجی تعلیمی اداروں کو مضبوط سے مضبوط بناتا جارہا ہے۔
حق تعلیم قانون (رائٹ ٹو ایجوکیشن)2010جوکہ جموں وکشمیر میں بھی اب مکمل طور نافذ العمل ہے ، جس کے تحت پرائیویٹ اسکولوں میں 25فیصد کوٹہ غریب بچوں کے لئے مخصوص ہے۔ مطلب کہ اگر پرائیویٹ اسکول میں100بچوں کا داخلہ ہو تو اُس میں 25غریب بچوں اور مالی طور کمزور بچوں کو داخلہ دینا ہے اور اُن سے کوئی فیس وصول نہ کرنا ہے۔ تعلیمی سال2023-24کے درمیان جموں وکشمیر میں اس سے 20000سے زائد غریب بچوں کو فائیدہ ملنے کا ہدف ہے۔ لہٰذا آپ اپنے پاس جو بھی پرائیویٹ اسکول ہیں، وہاں پر اِس بات کو یقینی بنائیں کہ غریب بچوں کو داخلہ ملے، اگر کوئی انکاری کرتا ہے تو اُس کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
مندرجہ بالا خامیوں کو اُجاگر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کچھ ہی ٹھیک نہیں۔جموں وکشمیر میں کثیر تعداد میں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جوبہت اچھا کام کر رہے ہیں۔اُنہیں کی وجہ سے تو خواندگی میں بہتری آئی ہے، ایسے سبھی اداروں اور اساتذہ کرام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے اور اُنہیں بطور رول ماڈل بھی پیش کیاجانا چاہئے۔ تعلیم ایسا شعبہ ہے جس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی اہمیت اور تقدس کی شان ِ رفتہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔اگر صرف ایجوکیشن سیکٹر معیاری ہوجائے تو پھر طلبا زندگی کے جس شعبہ میں بھی جائیں گے وہاں کمال ہی دکھائیں گے۔تعلیم جڑ ہے۔ اگر زندگی کے مختلف شعبہ جات کے اندر بدنظمی، بدعنوانی، رشوت خوری، حویش پروری اور دیگر برائیوں کا خاتمہ اگر ہم چاہتے ہیں تو اپنی پوری توانائی شعبہ تعلیم پر صرف کردیں، خود بخود سارانظام درست سمت اختیار کر لے گا۔ہمیں اِس بات کا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اندراج مہم چلانے کی ضرورت کیوں پڑی۔ رھیڑیوں پر فروخت کی جانے والی چیز کے لئے گاہک کو آواز دینی پڑتی ہے جبکہ برینڈ تو شوروم میں بکتے ہیں جہاں گاہک خود کھینچا چلا جاتاہے۔
٭٭٭٭٭٭
کالم نویس جموںوکشمیر ہائی کورٹ کے وکیل ہیں
[email protected]
7006541602