شاداب خان کوّر کی پوزیشن سے چلتے ہوئے بیٹسمین کی جانب بڑھ رہے تھے، ان کی نظریں ہوا میں معلق گیند کی جانب تھیں اور یوں تو انگلینڈ کو جیت کے لیے صرف 30 رنز درکار تھے لیکن لوئس گریگوری کی وکٹ میچ کا ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی تھی۔ایسے میں شاداب کی نظر سرفراز پر پڑی۔ فضا میں بلند ہونے والا کوئی بھی ایسا کیچ جو وکٹ کے آس پاس اور وکٹ کیپر کی رسائی میں ہو تو عموماً یہ وکٹ کیپر کا ہی کیچ ہوتا کیونکہ اس کے پاس گلوز موجود ہوتے ہیں اور کیچ ڈراپ ہونے کے چانسز کم ہوتے ہیں۔لیکن یہاں سرفراز ٹہلتے ہوئے گیند کی جانب بڑھ رہے تھے اور بظاہر ان کا کیچ لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ایسے میں حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شاداب نے آخری لمحات میں بمشکل یہ کیچ پکڑا اور پھر سوالیہ نطروں سے سرفراز کی جانب دیکھا۔یوں تو پاکستان کو ایک اہم کامیابی مل گئی اور گریگوری 77 رنز کی بہترین اننگز کھیل کر پویلین لوٹ گئے لیکن یہ کیچ ٹیم میں خود اعتمادی کے فقدان اور اس سیریز میں پاکستان کی کارکردگی کی صحیح معنوں میں عکاسی کر رہا تھا۔پاکستانی ٹیم نہ صرف انگلینڈ کی ‘بی ٹیم سے ایک روزہ میچوں کی سیریز میں وائٹ واش ہو گئی بلکہ اس نے ون چیمپیئن شپ کے انتہائی اہم پوائنٹس بھی گنوا دیے۔سنہ 2015 میں یہی انگلش ٹیم ورلڈ کپ کے گروپ مرحلے سے ہی باہر ہو گئی تھی، تاہم ایون مارگن کی قیادت میں اس ٹیم کے کلچر اور انداز میں جو تبدیلی گذشتہ چھ برسوں میں واقع ہوئی وہ اس سیریز میں عیاں ہے۔ادھر پاکستان کی ٹیم جو 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کی فاتح تھی، اس کا انگلینڈ میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنا متعدد سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ایسے ہی متعدد سوالات سوشل میڈیا پر پاکستانی مداح گذشتہ رات سے پوچھ رہے ہیں۔برمنگھم میں میچ کے اختتام کے بعد نجی ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے اکثر مداح انگلینڈ کی ‘سی ٹیم سے ہار کو شرمناک قرار دیتے دکھائی دیے اور پاکستانی کرکٹ مینجمنٹ میں فوری تبدیلیوں کا مطالبے کرتے رہے۔ ایسے ہی مطالبے سوشل میڈیا پر بھی کیے جا رہے ہیں اور مصباح الحق اور وقار یونس کی بطور کوچ کارکردگی پر تنقید ہو رہی ہے۔میچ کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے کپتان بابر اعظم نے کہا کہ اس میچ میں ناقص فیلڈنگ اور بولنگ شکست کی وجہ بنی جبکہ گذشتہ دونوں میچوں میں پاکستان کی بیٹنگ نے مایوس کیا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اس ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے اور امید ہے کہ آئندہ آنے والی سیریز میں پاکستان کی کارکردگی بہتر ہو گی۔جب ایک صحافی نے بابر اعظم سے پوچھا کہ شعیب اختر کے مطابق اس ٹیم میں سٹارز نہیں ہیں تو آپ کا اس بارے میں کیا کہنا ہے تو انھوں نے کہا کہ ‘یہ تو آپ ان ہی سے پوچھیں، ان کے لیے نہیں میرے نزدیک تو اس ٹیم میں بہترین کھلاڑی ہیں۔بابر اعظم کا میچ کے آغاز میں بیٹنگ کا سست روی کا شکار ہونے سے متعلق کہنا تھا کہ ‘آغاز میں ہم چاہتے تھے کہ ہم شراکت قائم کر سکیں۔ جس کے بعد آخر میں ہم اسے کور کرنے میں کامیاب رہے، میرے خیال میں 331 رنز بہت تھے اس وکٹ پر اگر آخر میں مسلسل وکٹیں نہ گرتیں تو اسے بھی کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔