شہباز رشید بہورو
پروفیسرحمیدنسیم رفیع آبادی صاحب کشمیرکے معروف فلسفی،مصنف اوردینی اسکالر ہیں ۔موصوف سابق ڈین شعبہ سوشل سائنسز سنٹرل یونیورسٹی آف کشمیربھی رہ چکے ہیں اورآجکل آ اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اونتی پورہ میں ڈائریکٹر انٹرنیشنل سینٹر فار سپریچول اسٹڈئیز کے عہدے پر فائز ہیں ۔چونکہ ان سے صوتی ملاقات تقریباً دو سال سے جاری تھی اس لئے ان سےدوبدو ملاقات کرنے کی شدید خواہش تھی ۔ اس بار جب میں سرینگر گیا تو ان سے ملاقات بھی ہوئی اور ان کی دعوت پر کشمیر یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیئیز کی طرف سے منعقد کئے گئے ایک سیمینار میں شریک ہوا ۔جہاں وادی کے معروف اسکالرز اور بین الاقوامی شخصیات سے متعارف ہونے کا موقعہ ملا۔سیمینارمیں بین المذاہب مکالمہ اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی چیلنجزاورامکانات کے موضوع پردہلی،علی گڑھ وغیرہ جامعات سے مہمان اسپیکر مدعو تھے اورساتھ ساتھ وادی کی مختلف جامعات سے آئے ہوئے ریسرچ اسکالرس نے بھی متعلقہ موضوع پر اظہارِ خیال فرمایا ۔سیمینار ہال میں قدم رکھتے ہی مائک پر ایک معروف نام سننے کو ملا وہ تھا ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی صاحب کا ۔ان کا تعارف پہلی مرتبہ ان کی معروف کتاب’ تاریخ دعوت و جہاد پڑ‘ھ کے حاصل ہوا تھا ۔اس لئے ان سے دلی لگاو کئی سالوں سے قائم تھا ۔مذکورہ سیمینار میں ان سے بھی مفصل ملاقات کرنے کا موقعہ حاصل ہوااورمختصراًمختلف موضوعات پر تبادلہ خیال بھی ہوا۔ان کے علاوہ الہ آباد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرپروفیسررتن لال ہانگلو،کشمیرکے پہلے ای اے ایس آفیسرمحمد شفیع پنڈت اور وادی کے معروف فلسفی ڈاکٹر معروف احمد شاہ بھی موجود تھے ۔
سیمینار کا آغاز پروفیسر جی این خاکی(صدر شعبہ اسلامیات) کے ابتدائی کلمات سے ہواجس میں موصوف نے موضوع کا تعارف پیش کرنے کے ساتھ ساتھ باہر سے تشریف فرما مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔مجھے ذاتی طور بڑی مسرت ہوئی کہ شعبہ اسلامیات خاکی صاحب کی زیرِصدارت نہایت مؤقراوردقیق علمی وتحقیقی اقدامات اٹھا رہا ہے اور ان کی راہنمائی میں شعبہ اسلامیات جدید طرزپر گامزن ہوتے ہوئے پورے ملک میں ایک نمایاں مقام حاصل کررہا ہے۔
سیمینارمیں صدارتی خطبہ پیش کرتے وقت پروفیسرحمید نسیم رفیع آبادی صاحب نے ایک ایسا جملہ بیان کیا کہ جس سے میری پوری توجہ ان کی طرف مبذول ہوئی ۔ان نے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ مغرب دور جدید میں بین الممالک اتحاد واتفاق کی طرف جارہاہے اور مشرق مسلسل افتراق و اختلاف کی طرف رواں دواں ہے ۔انہوں نے جی ۸ ۔جی ۲۰ ،یوروپین یونین اور دیوار برلن کو مسمار کرنے کی تجاویز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دو ممالک پاکستان اور بھارت کئی سالوں سے اتنا قریب ہونے کے باوجود بھی ایک دوسرے کے لئے اجنبی بنے ہوئے ہیں ،چین ،بھارت اور نیپال بھی آپسی مخاصمت کے دلدل میں بری طرح سے پھنسے ہوئے ہیں اور مذہب کے نام پر عوام کاجینا حرام کردیا گیا ہے۔انہوں نے مزید فرمایا کہ مشرق فرقہ وارانہ فسادات اور مغرب کی نوزائد تہذیبی تصادم (Clashes of civilization )جیسی آئڈئیئلوجی کا بہترین تجربہ گاہ بنا ہوا ہے ۔اس معاملے میں میرا بھی یہی نقطہ نظر ہے کہ مشرق خصوصاً عرب دنیا اور برصغیر مغرب کے تقسیمی پروپیگینڈا کا شکار پچھلے تین سو سال سے رہا ہے ۔اسی لئے یہ جملہ میرے لئے بحیثیتِ موضوع باعث ِ غورو فکر بن گیا اوراسی ضمن میں اختصار کے ساتھ اپنا نقطہ نظر قارئین کے سامنے پیش کررہا ہوں ۔
مغلوں کے زوال کے بعد ہندوستان کی باگ دوڑ ہزارہا میل دور سے آئے ہوئے سفید فام تاجروں نے سنبھالی ۔یہ واقعہ لکھنے اورپڑھنے میں جتنا معمولی معلوم ہوتا ہے واقعتاًاتنا نہیں ہے بلکہ یہ انسانی تاریخ کا ایک المناک اور حیرت انگیز واقعہ ہے کہ ایک تجارت کرنے والی کمپنی ایک ایسی سرزمین میں آکر وہاں کے حکمرانوں سے لیکر ایک معمولی انسان تک کو اپنی مکاری اور عیاری سے بآسانی بیوقوف بناتی ہے اور آخرکار انہیں اپنا غلام ومطیع بنا کر ان پر اپنا استعماری تسلط جمالیتی ہے۔انگریز چونکہ یورپ میں ترقی کی راہوں پر گامزن تھا اس لئے اس کا پوری دنیا پر قبضہ جمانے کا خواب بھی ہر دن اپنا نیا ہدف متعین کرتا تھا اور اسی تعین کے ساتھ ساتھ وہ ایک مخصوص لائحہ عمل اپنا کر اپنی مقصودہ منزل کو حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ۔ہندوستان پر قبضہ کرنے سے پہلے اس نے یہاں کے باشندوں کے عادات واطوار ، تقلید ورسومات ،مذہب و کلچر اور مزاج و نفسیات کا باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ اور چانچ شروع کردی اور آخر کار ان کے نظام میں ایسے سرایت کرگئے کہ پورے ہندوستان کو کھوکھلا کرکے چھوڑا ۔اس ضمن میں انٹوئن ڈوبوئس کی کتاب ’ہندوں کی عادات ،رسومات اور تقریبات کا حوالہ موضوع کی نسبت سے اہم ہے۔فرانسیسی مصنف ڈیو بائیس نے چالیس سال تک ہندوستانی تہذیب کا مطالعہ کیا اور ہندو مذہبی رسم ورواج پرسب سے ضخیم اور مستند کتاب لکھی ۔ جیمس مل نے برطانوی ہندوستان کی تاریخ لکھی حالانکہ وہ کبھی ہندوستان وارد نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی اس کتاب کا مطالعہ ہر برطانوی ایڈمنسٹریٹر کے لئے لازم تھا۔ جیمس مل وہ پہلا مؤرخ ہے جس نے تاریخ کو مسلم اور ہندو ادوار میں تقسیم کر کے ہندؤں اور مسلمانوں کے سماجی نظام کے اختلافی پہلوئوں کو اجاگر کیا‘جس کا مدعا صرف ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک دائمی تفریق کی لائن کھینچنا تھا جس کا فائدہ اس کی آنے والی نسلوں تک کو ملتا رہے ۔ مل کی طرح نظریہ افادیت
کے تحت تاریخ لکھنے والے مورخین میں ایچ جی کین بھی شامل ہے جو برطانوی اقتدار کو ہندوستانیوں کے لیے مسیحا کے طور پر پیش کرتا ہے اور ماقبل ادوار کو ظلم و جور اور قتل و غارت گری کا زمانہ قرار دیتا ہے۔ وہ لکھتا ہے انگریز ہندوستان کے نجات دہندہ بن کر آئے۔ ورنہ اس سے قبل کی صدیاں ایک مسلسل منظرنامے سے عبارت تھیں اور وہ تھا قتل اور تباہ کاری۔ اس ہلاکت خیز عہد کا انگریزوں کے ہاتھوں ہندوستان کی فتح سے خاتمہ ہو گیا۔
الفنسٹن ،لین پول ودیگر مستشرقین نے انگریزوں سے ماقبل مسلمانوں کے دور حکوت کو ہندؤں کے لئے ظلم و ظلمت ،تخریب وفساد اور ذلت ورسوائی کا دور کے طور پر ذہن نشین کرنے کی شاترانہ کوشش کی ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ۔انہوں نے ہندوستان کی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے لئے ہندؤں میں مسلمانوں کے متعلق ذہر بھرنے کے لئے ایسی تاریخ نویسی کی ہے کہ وہ تاریخ نویسی سے زیادہ نفرت نویسی کا شاہکار ہے ۔
انگریز نے ہندوستان پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ہر ممکنہ سطح پر کام کیااور ان کے ہر کام کے پیچھے ان کی بری نیت کارفرما تھی۔انہوں نے تعلیم و ترقی کے میدان میں جو بھی خدمات انجام دی وہ تمام اپنے تسلط کوقائم کرنے اور برقرار رکھنے کے لئے مقصود تھیں۔لارڈ میکالے کا نظام ِتعلیم ہو یا ایف ایم ہولمسر کی انڈیا کے چار ہیروزہو یا بنگال کی ایشیاٹک سوسائٹی ہو سب کی سب کتب اور تنظیمیں منافقت اور مکر کا شربت تھیں جو ہندوستانیوں کو پلایا گیا۔ان تمام نوع کی کاراوائیوں کا مقصد صرف تسلط اور جبر تھا۔لیکن ان تمام ہتھکنڈوں میں ایک اہم ہتھکنڈا جو انگریز ی حکومت نے ہندوستان میں اپنے رول کو مستحکم کرنے کے لئے ا ستعمال کیا وہ فرقہ وارانہ منافرت تھی۔ ہندؤں اور مسلمانوں کے مابین نفرت کے بیج بو کر برصغیر میں اپنے آپ کو انگریز نے مستحکم کیا ۔معروف بھارتی اسکالر شاشی تھارورلکھتے ہیں استعمارکی تقسیم کرو حکومت کرو پالیسی نےمذہبی فرقہ وارانہ منافرت کو پیدا کرکے اپنی استعمار ی حکومت کو مضبوط کیا جو منافرت بعد میں ۱۹۴۷ میں اپنے عروج کو پہیچ گئی۔
برصغیر انیسویں صدی سے فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں رہا جس کی وجہ سے ہندو مسلم سوال نےباضابطہ متعلقہ سیاسی بلاک پیدا کئے ۔اس سوال نے سیاست کے دائرے سے نکل کر سماج کو بھی متاثر کیا اور صدیوں سے ایک ہی ملک میں رہنے والے دو ہمسائیوں کے راہنماوں کو باہمی مکالمہ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ نفرت کی بھٹی اس قدر گرم ہے کہ ہر لمحہ یہ ملک فسادات کے خطرے سے دوچار ہتا ہے ۔بہر حال اب یہ سوال مستقل ایک موضوع اور شعبہ کی شکل اختیار کرچکا ہے جس پر بہت سارے مسلم اور ہندو مخلص حضرات مثبت کام کر رہے ہیں ۔۱۹۴۷کےبعد ایک ہی ملک میں رہنے والے دو فریق آپس میں ایک دوسرے کے لئے اجنبیت کو محسوس کر رہے ہیں حالانکہ دونوں کےدرمیان گہری مماثلت اور یکسانیت بھی ہے ،جس مماثلت اور یکسانیت کو سمجھنا اور اسے عام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت معلوم ہوتی ہے۔اسلام چونکہ عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیلا اس لئے عربوں اور ہندؤں کےقدیم تعلقات کو عوام الناس تک پہنچانا اہل علم کا موجودہ حالات میں اہم ترین فریضہ ہے ۔یوں تو اہل علم سے ہندوستان اور عربوں کے تعلقات پوشیدہ نہیں ہیں لیکن بعض لوگ جانتے بوجھتے اس موضوع پر جانبدارانہ رویہ اختیار کرکے نفرت کا ماحول پیدا کررہے ہیں جس کی وجہ سے عالم انسانیت کا امن داو پر لگ سکتا ہے ۔عرب اور ہند کے تعلقات علمی ،فنی اور تجارتی معاملات پر مبنی تھے جن سے انسانی علم نے ایک پڑاو سے نکل کر دوسرے پڑاو پر قیام کیا ۔تجارتی تعلقات کے حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی اپنی کتاب ’عرب ہند تعلقات ‘میں لکھتے ہیں :
’’ہندوستان اور عرب دنیا کے وہ دو ملک ہیں جو ایک حیثیت سے ہمسایہ اور پڑوسی کھا جاسکتے ہیں۔۔۔عرب تاجر ہزاروں برس پہلے سے ہندوستان ساحل تک آتے تھے اور یہاں کے بیوپار اور پیداوار کو مصر اور شام کے ذریعے یورپ تک پہچاتے تھے اور وہاں کے سامان کو ہندوستان ،جزائر ہند،چین اور جاپان تک لے جاتے تھے ۔‘‘
علمی تعلقات کے ضمن میں علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب کے تیسر باب میں مفصل گفتگو فرمائی ہے ۔ان کی تحقیق کے مطابق جب اہلِ عرب ہندیوں کے علم سے واقف ہوئے تو ان کی علمی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرایا اور اسطرح سے ہندی علوم کو عربوں نے اپنے علوم کا حصہ بنایا ۔اس موضوع پر مزید جاننے کے لئے مذکورہ کتاب کو دیکھا جاسکتا ہے ۔
مذہبی کتب کے مطالعہ سے بھی یکسانیت کے حیرت انگیز نکتے سامنے آتے ہیں جن کی بڑے پیمانے پر وضاحت سے بین لمذاہب مکالمہ ایک مثبت تبدیلی لانے کا باعث بن سکتا ہے ۔قرآن مجید نے غیر مسلموں کے سامنے اپنا مدعا پیش کرنے کے لئے ایک بنیادی ہدایت تجویز کی ہے وہ یہ کہ :
’’کہہ دو ،اے اہل کتاب اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ۔۔۔‘‘
ویدوں کا مطالعہ قرآن کی روشنی میں بین المذاہب موضوع کے فہم پر ایک ایسا کام ہے جس کا تقاضا آج کے دور میں ہر عام و خاص کررہا ہے ۔آئے ویدوں کے کچھ مضامین پر قرآن کی روشنی میں نظر ڈالیں :
قرآن کہتا ہے ’تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ‘(الفاتحہ ) اور وید کا اس جیسا منتر یوں ہے ’اس دنیا کے بنانے والے کے لئے تعریف ہے ‘(رگ وید ۵۔۸۱۔)
’جو رحمن اور رحیم ہے ‘(الفاتحہ)’جو دینے والا اور رحیم ہے ‘( ۳ ۔۳۴۔)
’اس کی کسی چیز سے مشابہت نہیں ہے ‘(شوریٰ)’اس پرمیشور کی کوئی تصویر نہیں ہو سکتی ‘(یجروید۳۲۔)
اس حوالے سےان مختلف کتب کا مطالعہ جو اس موضوع پر لکھی گئیں ہیں نہایت مفید رہے گا۔
بین المذاہب مکالمے کے دوران فریقین کی جانب سے نہایت اعتدال اور غیرجانبدارنہ رویے کو اختیار کرکے صرف تلاشِ حق پر نظر رہنی چاہئے ۔کسی بھی نوعیت کا تعصب اور جذباتیت کا اظہار نہ ہو تاکہ یکسانیت کے بدلے پھر کہیں بات فرقہ واریت پر منتج نہ ہو ۔مجھے اس موقع پر مولانا ثناء اللہ امرتسری کا مجھے وہ جملہ یاد آتا ہے جو آپ نے فریق کا جواب دینے کے لئے کہا تھا؛
’’قبل ازمضمون ایک بات عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔ہم ایک ملک کے رہنے والے ہیں ۔۔۔ملک کے ہر نفع ونقصان میں باہم شریک ہیں اس لئے ہماری یہ گفتگو ایسے پیرائے میں ہونی چاہئے جس میں ملکی مفاد کو کوئی نقصان نہ ہو اور ہندو مسلم سوال پیدا نہ ہو بلکہ برادارانہ طور پر تبادلہ خیال ہو۔‘‘
بین المذاہب مکالمہ کے ضمن میں صرف ہندومت اور اسلام ہی نہیں آتا ہے بلکہ عیسائیت ،یہودیت ،بدھ مت وغیرہ بھی زیرِ بحث آتے ہیں۔لیکن چونکہ اس ملک میں زیاداکثریت ہندؤں کی ہے اس لئے پہلا حق ہندؤں کا ہم پر ہے کہ انہیں اسلام کی تفہیم کا پیغام نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ارسال کریں تاکہ اسلام کے متعلق ان کے اذہان میں پیدا شدہ شکوک و شبہات کو دور کیا جائے ۔
باہمی تفہیم کی نظریاتی گفتگو اگرچہ اپنی اہمیت رکھتی ہے لیکن عملی نفاذ کی صورتیں تجویز کرنے کے بغیر موضوع کا حق ادا نہیں ہوتا ۔اس لئے ذیل میں چند عملی تجاویز پیش کررہا ہوں ۔پہلی فرصت میں اس ملت کا ہر فرد دین مبین کا ایک سیدھا سادھا اور فطری مفہوم ہر اس شخص تک پہنچائے جو اس کے تعلقات کے دائرے میں آتا ہو۔اسے اس کے مذہب کے متعلق بنیادی جانکاری فراہم کرکے قرآن کی روشنی میں مماثلت اور یکسانیت کے وہ باتیں بیان کرےجو ان کی کتب میں بیان ہوئی ہیں ۔ان سے کہا جائے ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ قرآن کو مانو یا اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کریں بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ تم وید و گیتا کی تعلیم پر عمل کرو ۔آپ کی مقدس مذہبی کتب میں کہیں بھی گناہ ،ظلم ، بدکاری ،چوری ،فریب کی تعلیم نہیں دی گئی ہے اور قرآن مجید کی تعلیمات بھی یہی ہیں تو اس لئے ہم کیوں آپس میں مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔آئیں ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھیں اور بغیر کسی تعصب اور ہٹ دھرمی کے راہِ اعتدال تلاش کریں جو ہمیں افراط وتفریط سے بچا کر صراط المستقیم پر گامزن کرے ۔
دوسرا جو قدم اس ضمن میں اٹھایا جائے وہ یہ ہے کہ اپنی اپنی برتری ثابت کرنے کے بجائے محبت کا پیغام عام کیا جائے کیونکہ پیغامِ محبت ہی سے امن کے حالات پیدا ہوں گے اور حالتِ امن ہی میں ایک دوسری کی بات کو صحیح طور پرسمجھا جاسکتا ہے ۔ورنہ جہالت اور بدامنی میں جہاںلہوِ انسانیت رائیگاں ہو سکتا ہے وہیں اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ مذاہب کا تقدس جہالت کی بنا پر پامال ہو ۔اس لئے تعصب اور تنگ نطری کے قفس سے آزاد ہو کر اعتدال اور وسعتِ نظری کا ثبوت پیش کریں ۔
یہ بات تو تیقن کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس ملک کی ترقی اور امن مسلمانوں اور ہندؤ ں کے درمیان خوشنما تعلقات پر مبنی ہے اس لئے ہندو مسلم یکجہتی ذمہ دار طبقات کی طرف سے اہم ترین اہداف میں ہونی چاہئے ۔یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لئے اعلیٰ سطح پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جانا چاہئے اور اسی حوالے سے میڈیا (جو آج سب سے زیادہ اس یکجہتی کو نقصان پہنچا رہی ہے )کو غیرضروری خبریں نشر کرنے میں منظبط کیا جائے ۔بین المذاہب تصادم کو انسانیت کے دشمن از سرنو زندہ کرنے کے لئے اسلام کو ہدف ِ تنقید بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اسلام کو پوری دنیا کے لئے ایک خطرہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں ۔اس گہناونی حرکت میں متعصب ،تنگ نظر،مفاد پرست اور جاہل لوگوں کا ایک ٹولہ حیوانوں کی سطح پر اتر کر امن عالم کے لئے خود ایک مہیب خطرہ بنا ہوا ہے۔اس لئے انہیں اس روش سے باز رکھنے کے لئے اور ان کے زیرِ اثر عوام کو سمجھانے کے لئے ایک متحرک پالیسی ہر مذہبی تنظیم عمل میں لائے جو کسی نہ کسی پہلو سے خدمتِ انسانیت کا فریضہ ادا کرے ۔