وادی بھر کے جنگلات میںجنگل مافیا کے ہاتھوں درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے جس کی وجہ سے ماحولیات پر ہر گزرتے دن منفی اثرات پڑرہے ہیں۔ گزشتہ چار پانچ برسوں کے دوران وادی کے شمال و جنوب میں جنگل سمگلروں کی غیر قانونی کارروائیوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اوران کی ان مذموم کارروائیوں کے نتیجے میں ہر سو سبز سونے کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے۔ جنوبی کشمیر کے شوپیان اور اننت ناگ سمیت وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع سے گزشتہ مہینوں کے دوران جنگل مافیا نے متعدد کارروائیوں کے دوران جنگلات کی بے دریغ کٹائی کرتے ہوئے سبز سونے کو یہاں سے دوسرے مقامات کی جانب منتقل کیا۔ اگر چہ اس عمل کے دوران چند ایک پر بروقت کارروائی کرتے ہوئے جنگل مافیا کے مذموم ارادوں کو ناکام بنایا گیا تاہم بیسوں واقعات ایسے ہیں جن میں جنگل مافیا کامیاب رہا۔ اس طرح کی کارروائیوں کے نتیجے میں نہ صرف ماحولیاتی توازن بگڑتا چلا جارہا ہے بلکہ جنگلاتی حصے میں بود وباش اختیار کرنیوالے جنگلی جانور بھی غذا اور پناہ کی تلاش میں آبادی والے علاقوں کی اور پیش قدمی کررہے ہیں۔ گزشتہ برس جنوبی و وسطی کشمیر کے متعدد علاقوں میں جنگلی جانوروں کی نقل و حرکت دیکھی گئی جس کے نتیجے میں آبادی کے اندر کافی خوف و ہراس پھیل گیا۔عوامی حلقوں کی جانب سے اگر چہ ہزاروں مرتبہ انتظامیہ کو اس معاملے میں ٹھوس پالیسی تشکیل دینے اور ماحولیات توازن کو قائم و دائم رکھنے کیلئے جنگلاتی خطے کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے اپیلیں کی گئیں تاہم عوام کی عرضداشت پر شاد و نادز ہی توجہ مرکوز کی گئی۔ انتظامیہ کی معاملے کے تئیں عدم توجہی کے نتیجے میں جنگل اسمگلروں کے اندر غیر قانونی سرگرمیاں انجام دینے کیلئے حوصلے مزید بڑھتے گئے اور یوں ان غیر قانونی سرگرمیوں پر روک لگانے کے بجائے ان میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔ عوامی حلقوں کے بقول جنگلاتی خطے کی بے دریغ کٹائی محض جنگل مافیا کا انفرادی کام نہیں ہوسکتا بلکہ اس میں بعض مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر جو محکمہ کے اندر ہی مختلف مناصب پر براجمان ہیں، کا شانہ بشانہ ساتھ بھی شامل ہیں جس کے بعد ہی انتظامیہ کے ناک کی سیدھ میں اس طرح کی دلیرانہ کارروائیاں عمل میں لائی جاتی ہے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے جنگلات کا تحفظ یقینی بنانے اور جنگل مافیا کیخلا ف سخت کارروائی کرنے کیلئے سال 1978میں سخت قانون ’’پبلک سیفٹی ایکٹ‘‘ لاگو کردیا ۔ اس قانون کی رو سے ابتدائی چند برسوں تک اگرچہ گنے چنے ملوثین کو قانون کے کٹھہرے میں کھڑا کیا گیا تاہم بعد میں اس قانون کی نوعیت ہی بدل ڈالی گئی او ریوں جنگل مافیا کو سبز سونے کی لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے نتیجے میں اب وادی بھر کا ماحولیاتی توازن بگڑ چکا ہے۔ موسم گرما کے دوران درجہ حراست کی تپش انتہائی تیز ہونے لگی ہے جبکہ سردیوں کے دوران درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بہت حد تک گررہا ہے۔ یہ سب ہمارے ہاتھوں کی کمائی ہے جس پر ہم روک لگانے سے قاصر ہے۔ ماہرین کے بقول اگر جنگلاتی اراضی کا تحفظ نہ کیا جائیگا تو آنیوالے برسوں کے دوران وادی کشمیر میں موسمی حالات انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔