تحریر:-ہلال بخاری
کیا خوب نظارے تھے ہر طرف فضا میں مہک اور تازگی کا احساس ہوتا تھا۔ واہ ! اتنا صارف ستھرا ماحول میں نے آج سے پہلے اپنے ملک میں نہ دیکھا تھا۔ ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ وہ گندگی کے ڈھیر جو لوگوں نے ہمارے راستوں اور گھروں کے سامنے جمع کئے تھے انکا کوئی نام نشان نہیں تھا۔ انکی جگہ خوبصورت اور مہک دار پھول دلکش فضا میں لہرا رہے تھے۔ جس طرف بھی دیکھیں ایک عجیب سی مسرت کا احساس ہوتا تھا۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کی چمک کھل رہی تھی۔ ہر ایک انسان خوش و خرم نظر آتا تھا۔ میں نے کچھ افراد کو آپس میں فراخ دلی سے گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔
ایک تندرست اور توانا نوجوان نے ایک خوش رو بزرگ انسان سے نہایت ہی پر ادب انداز میں مخاطب ہوکر پوچھا، "بابا جی آج ہر طرف خوشی اور مسرت کیوں پھیل رہی ہے ؟ ایسا لگتا ہے جیسے سب کو امن اور سکون حاصل ہوا ہے ”
اس بزرگ نے شفقت بھرے لہجے میں جواب دیا ، ” بیٹا ہمارے وطن پر رب العالمین کی رحمت کا نزول ہوا ہے۔ امن اور سلامتی کے دور کا آخر کار بڑے انتظار کے بعد آغاز ہوا ہے۔ نفرت کے دن گزر چکے۔ اب محبت ، امن اور رواداری کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ ملک کے تمام سیاستدان اور مزہبی پیشوا ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں۔ امیروں کی کنجوسی کے خاتمے کے ساتھ ہی غریبوں کی تنگ دستی کا بھی اختتام ہوا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ دولت کے بجائے اب علم سے محبت کرتے ہیں۔ بچے اب موبائیل سے زیادہ وقت اپنی کتابوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ نوجوان بد اخلاقی اور بے حیائی کے بجائے اپنی اور دوسروں کی عزت نفس اور غیرت کا خیال کرتے ہیں۔ ہماری بہن بیٹیوں کو کہیں آنے جانے میں اب وہ ڈر نہیں لگتا جو پہلے لگتا تھا۔ ہمسایہ ہمسایے کی ملکیت کو اب حسد کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے محبت اور شفقت سے پیش آتا ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو محفوظ پاتا ہے اور خوش نصیب تصور کرتا ہے کہ وہ اس عظیم و شان وطن کا باشندہ ہے جس کی خوشحالی کے چرچے پوری دنیا میں گردش کر رہے ہیں۔ ”
اس جوان کے چمکتے چہرے پر مسکراہٹ کا دلکش سایا لہرانے لگا اور وہ کھلکھلا کر اور زیادہ مسکرا کر مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھنے لگا،
،،”یارا میرے ساتھ جنت کو چلو گے ؟”
میں اسکا سوال سن کر حیران ہوا۔ میں سوچنے لگا،” میرے گھر میں ماں باپ ہے، بیوی ہے اور دو بچے ہیں انہیں چھوڑ کر میں کیسے جاسکتا ہوں ؟ ان پے کیا گزرے گی ؟ اور پھر یہ دنیا بھی تو جنت کا ایک نمونہ ہی بنی تھی۔”
اس کی یہ مسکراہٹ لیکن میرے دل کو بھا گئی اور میں نے ارادہ کیا کہ اسے گلے سے لگا لوں مگر اچانک وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں حیران تھا کہ یہ خوب رو کہاں چلا گیا اتنے میں کہیں سے زور سے آواز آئی۔
ارے بخاری صاحب جاگ جائیے۔ اب بہت دیر ہوچکی ہے” میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ۔مجھے کوئی دکھائی نہ دیا۔ میرا دل اس حسین و جمیل نوجوان اور اس خوبصورت منظر کو پھر سے ڈھونڈنے لگا۔ مگر وہ آواز جیسے میرے پیچھے ہی پڑ گئی۔
"اٹھو جی ۔۔۔۔مسکرا کیوں رہے وہ ۔۔۔۔شاید یہ کوئی حسین خواب دیکھ رہا ہے ”
وہ کسی سے مخاطب ہو کر بولا اور وہ سب زور زور سے ہنسنے لگے
” ہا ہا ہا ہا ہا”
میرا دل کہہ رہا تھا، "نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔” پھر میرے دماغ نے کہا، "کاش یہ حقیقت ہوتی۔ کاش! ” اسی کے ساتھ میری آنکھیں کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ میرے کچھ دوست میرے سامنے کھڑے ہیں اور مجھے سمجھ آیا کہ میں سحری کھا کر سو گیا تھا۔ میرے دوستوں میں سے کسی نے کہا ” رمضان میں اکثر سحری کے بعد ہم جو خواب دیکھتے ہیں وہ بڑے عجیب ہوتے ہیں”
سب یہ سن کر پھر سے ہنسنے لگے۔ اور میں خاموشی سے سوچنے لگا کہ یہ دراصل ایک ارمان تھا جو خواب کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔
ہلال بخاری
ہردوشورہ کنزر