یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ صحافت حکومتی اہلکاروں اور عام لوگوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت کے طور پر کام کرتا ہے۔ عام لوگوں کو درپیش مشکلات اور اُن کے جائز مطالبات کو حکام بالا تک پہنچانے کیلئے صحافت ایک کارگر وسیلہ ہے۔ دنیا بھرمیں جہاں جہاں لوگوں کو مشکلات کا سامنا رہاہے، وہاں صحافتی ادارے ہی عام لوگوں کی مشکلات کو کم کرنے میں اپنا رول ادا کرتے ہیں کیوں کہ یہی ادارے عام لوگوں کی زبان بن کر اُن کی ترجمانی کا فریضہ انجام دیکر حکام بالا تک عوام کی آواز کو پہنچاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں صحافت اورصحافی کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ایک صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بڑی باریکی اور خوش اسلوبی کیساتھ انجام دینے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے جموں کشمیر کے اس جنت نما خطہ میں صحافت جیسے مقدس شعبہ کو ہر حیثیت میں پامال کیا جارہا ہے۔ یہاں صحافت کو کل تک ایک ذمہ داری تصور کیا جاتا تھا اور اسی ذمہ داری کو احسن طریقے پر ادا کرنے کی وجہ سے ہی لوگ صحافیوں کو ہر دل عزیز رکھتے تھے اور اُن کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا جس نے سماج کے مجموعی ڈھانچہ میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے، اور پوری دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں سمیٹ کررکھ دیا ہے، میں صحافت اور اس کے اصولوں کو پائوں تلے روندے جارہا ہے جس پر جتناماتم کیا جائے کم ہے۔ گزشتہ پانچ چھ برسوں کے دوران جموں کشمیر میںصحافت نے ایک حیران کن رُخ اختیار کیا ہے جہاں ہر دوسرا شخص خود کو صحافی گردانتا ہے ۔ طلبا،تاجر، ملازم الغرض ہر ایک شعبہ میںایسے بے شمار افراد موجود ہیں جو خود کو شعبہ صحافت کیساتھ جوڑ رہے ہیں۔ کوئی رپورٹر کے نام پر تو کوئی خصوصی نامہ نگار کے نام پر معصوموں او رسادہ لوح عوام کی پگڑی اُچھالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑرہا ہے۔ ایسے افراد محض خودنمائی کیلئے ایک عدد پریس کارڈ گلے میں لٹکا کر ہاتھ میں موبائیل کیمرہ او رلوگو (نشان) اُٹھاکر شہر کے بیچوں بیچ لوگوں کے جم غفیر میں داخل ہوکر من مانے طریقے پر بڑی غیر ذمہ داری کیساتھ غیر مصدقہ خبروں کی تشہیر کرتے ہیں۔ شہر سرینگر میں قائم پریس کالونی جہاں اخباروں کے کئی دفاتر موجود ہیں، میں دن بھر صحافیوں کو ڈھیرہ جمارہتا ہے۔ ان صحافیوں میں ایسے بھی ہیں جنہوں نے جموں کشمیر اور بیرون ریاست کے کالجوں اور یونیو رسٹیوں میں صحافت کی پروفیشل تعلیم حاصل کی ہیں جبکہ بعض ایسے بھی صحافی ہے جنہوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ اس شعبہ کیساتھ صرف کیا ہے اور جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے شعبہ صحافت میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں لیکن اسی بھیڑ میں بعض ایسے بھی نام نہاد صحافی داخل ہوچکے ہیں جو محض سوشل میڈیا پر چھانے اور سادہ لوح عوام کو بلیک میل کرنے اور انہیں اپنی چرب زبانی سے بے وقوف بنانے کیلئے غیر مصدقہ خبریں پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ ایسے عناصر ذی عزت شہریوں کی پگڑی اُچھالنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔ محض فیس بک پر لائیو کا بٹن دبانے کیساتھ ہی یہ عناصر صحافت کے نام پر اناپ شناپ بکتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات زبان کا صحیح تلفظ نہ ہونے کی وجہ سے یہ نام نہاد صحافی پتہ نہیں کیا کہہ رہ ہوتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کے نتیجہ میں نہ صرف شعبہ صحافت کے اصلی کارکنان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے بلکہ عام لوگ بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ اُن کا حکومت سے بار بار یہ مطالبہ رہا ہے کہ ان نام نہاد صحافیوں کی بھر مار پر قابو پایا جائے ورنہ ایسے عناصر آنیوالے کل میں سماج کا پورا تانا بانا بکھیر کر رکھ دیں گے جس کا خمیازہ آنیوالی نسلوں کو صدیوں تک اُٹھانا پڑیگا۔ اُمید کی جاتی ہے کہ انتظامیہ اور متعلقہ حکام اس معاملے پر اپنی توجہ مبذول کرکے اس نام نہاد صحافی کلچر کے اس بے لگام گھوڑے پر قابو پانے کی سعی کریں گے تاکہ اس اُبھرتی ہوئی وبا کو سر اُٹھانے سے قبل ہی کنٹرول کیا جائے۔