وادی کشمیر میں گزشتہ کئی ایک ڈیڑھ دہائی سے غیر معیاری ادویات کے بڑھتے کاروبار نے عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر پیدا کی ہے کیوں کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی وساطت سے ادویات کا غیر معیاری ہونا کئی بار رپورٹ ہوچکا ہے۔ اس بڑھتے کاروبار کی وجہ سے اگرچہ مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کی دن دگنی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے لیکن دوسری جانب اس زہرسے بھرے کاروبار کی وجہ سے انسانی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے جس پر عام لوگ، مریض اور اُن کے گھروالے سخت پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ ادویات کے نام پر جو کاروبار وادی کشمیر میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے چلا آرہا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ یہ ایسا کاروبار بن چکا ہے کہ جس میں قدم قدم پر سادہ لوح عوام کیساتھ دھوکہ ہورہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کو بے کار بناکر مریضوں کو پرائیویٹ شفاخانوں میں علاج و معالجے کیلئے آنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سرکار کی طرف سے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگی ہوئی ہے تاہم اس کے باوجود ڈاکٹر کھلے عام نجی کلنکوں میں مریضوں کا ملاحظہ کررہے ہیں۔ اس عمل سے عام لوگوںکو سخت مشکلات پیش آرہی ہے۔ ڈاکٹر اس معاملہ میں کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ اس ذریعہ سے انہیں جس قدر منافع مل رہا ہے اس کو چھوڑنے کیلئے وہ کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہیں۔ مریضوں سے فیس اور دوسرے واجبات حاصل کرنے کے علاوہ انہیں دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے جو عطیات دئے جاتے ہیں ان کی مالیت لاکھوں روپے کی ہوتی ہے۔ اس سے دوررہنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔ انتظامیہ جس کسی ہسپتال پر اچانک چھاپہ ڈالتی ہے وہاں کئی کئی ڈاکٹر غیر حاضر پائے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف علامتی کارروائی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر اپنی روز سے باز نہیں آتے ہیں۔ادویہ کو لیکر دھوکہ دہی کا طریقہ سب سے پہلے بعض مفاد خصوصی رکھنے والے ڈاکٹر نے ہی شروع کیا۔ مسیحا کہلانے والا یہ طبقہ ایسے نام نہاد ڈاکٹروں کی وجہ سے ہی بدنام ہوچکا ہے۔ ایک تو علاج کے نام پر مریضوں کیساتھ گھوٹالے کئے جاتے ہیں ۔ ایسے امراض میں ملوث ہونے کا اظہار کیا جاتا ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہوتا۔ بعد میں ایسی ادویات خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے جن میں اکثر جعلی اور نقلی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کو ان ادویات کے لکھنے پر کافی کمیشن حاصل ہوتا ہے۔ نئے ماڈل کی گاڑیاں، دوسرے شہروں اور ملکوں کی سیر و تفریح اور جدید قسم کا گھریلو سامان کمپنیوں کی طرف سے عطیہ میں دیا جاتا ہے۔ اس دوران مریضوں کو مخصوص دکانوں سے ادویات خریدنے کے علاوہ مقرر کردہ ایجنٹوں سے ٹیسٹ کروانے کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ ان تمام معاملات میں ایسے مفاد خصوصی رکھنے والے ڈاکٹر باضابطہ خرید و فروخت کرکے اپنے لیے مراعات ممکن بناتے ہیں۔ جس ٹیسٹ کی سرے سے کوئی ضرورت نہیں ہوتی، وہ بھی کرائے جاتے ہیں۔ بالآخر اس طرح سادہ لوح مریضوں اور اُن کے تیمارداروں کو ادویات کے نام پر زہر بیچا جاتا ہے جسے استعمال کرنے کے بعد مریض کی صحت پر منفی اثرات پڑجاتے ہیں۔ مریض روبہ صحت ہونے کے بجائے مزید ابتری کا شکار ہوتا ہے لیکن اس سب میں صرف انہی ڈاکٹر صاحبان کا ہی فائدہ ہوتا ہے جو مریض کی زندگی سے کھیل کر اپنی دنیا تعمیر کرتے ہیں۔حکام کو چاہیے کہ وہ ایسے عناصر کی نشاندہی کرکے ناقص اور غیر معیاری ادویات کے کاروبار پر فل سٹاپ لگائیں اور مریضوں کیساتھ ہورہے کھلواڑ میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔