ہریش کمار(پونچھ، جموں)
آج بھی ہندوستان میں یہ ذہنیت رائج ہے کہ کمانا صرف مردوں کا کام ہے اور عورت کوگھر کی دیکھ بھال کرنی چاہئے۔ اگرچہ بدلتے وقت کے ساتھ شہری علاقوں میں یہ تنگ نظری تبدیل ہوئی ہے لیکن پھر بھی یہ سوچ دیہی علاقوں میں بہت زیادہ پیوست ہے۔ اس سوچ کو بدلنے کے لیے مرکز سے لے کر تمام ریاستوں کے ذریعہ اپنی اپنی سطح پر مختلف اسکیمیں چلائی جا رہی ہیں، جس سے نہ صرف خواتین کو بااختیار بنانے کو فروغ مل رہا ہے بلکہ لوگوں کی سوچ بھی بدل رہی ہے۔ اس قسم کی ذہنیت کو بدلنے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مرکز کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر میں بھی کئی اسکیمیں چلائی جارہی ہیں، جن کے ثمرات اب زمینی سطح پر نظر آرہے ہیں۔ بہت سی خواتین اور نوعمر لڑکیاں ان اسکیموں میں شامل ہو کر نہ صرف خود کو بااختیار بنا رہی ہیں بلکہ تنگ نظر لوگوں کو جواب بھی دے رہی ہیں۔ان اسکیموں میں، جموں و کشمیررورل لایولیہوڈ مشن سے منسلک ایک’امید‘ اسکیم بھی ہے۔ جو خواتین کو سیلف ہیلپ گروپ کے ذریعے جوڑ کر انہیں تربیت فراہم کر کے بااختیار بنا رہا ہے۔ اس اسکیم میں شامل ہو کر خواتین اور لڑکیوں نے نہ صرف کشمیر کی مشہور ڈش ’وازوان‘ بنانا سیکھ لیا ہے بلکہ اب وہ اس کے ذریعے آمدنی بھی حاصل کر رہی ہیں۔ بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ان لڑکیوں نے ناقدین کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ اس کے علاوہ سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعے تیار کردہ اشیا کی نمائش بھی منعقد کی جارہی ہے جسے عام لوگوں کی جانب سے کافی پسند کیا جارہا ہے۔ انہیں بھی بڑی تعداد میں آرڈر ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
کشمیر کی بات ’وازوان‘ کے بغیر ادھوری ہے۔ لوگ یہ ڈش خاص طور پر شادیوں اور خاص مواقع پر بناتے ہیں۔ پہلے اسے بنانے کا کام صرف مرد کرتے تھے۔ لیکن سری نگر ڈویژن کے گاندربل ضلع کی کچھ خواتین اس پرانی قدامت پسند سوچ کو توڑ کر انہیں بنانے کا کام کر رہی ہیں۔ نام اور پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو مشہور پکوان بھی پیش کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی عشرت نے بتایا کہ ”یہ کام ہمارے لیے نیا تھا کیونکہ اب تک صرف مرد ہی وازوان تیار کرتے تھے۔ شروع میں ہمارے کام پر بہت تنقید کی گئی، ہمارے حوصلے کو توڑنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کہی گئیں۔ لیکن ہمارا حوصلہ نہیں ٹوٹا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ اب ہمارے کام کو معاشرے میں سراہا جاتا ہے۔ اب لوگ نہ صرف ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ ہمیں شادی بیاہ جیسے مواقع پر وازوان پکانے کے لیے بھی خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے۔اس سے پہلے گاؤں میں ان کے کام پر کافی تنقید کی جاتی تھی، خیال کیا جاتا تھا کہ وازوان پکانا خواتین کے بس میں نہیں ہے۔ نہ صرف یہ لڑکیاں بلکہ ان کے گھر والے بھی معاشرے سے بہت کچھ سنتے تھے۔ لیکن عشرت اور ان کی ٹیم ان تنقیدوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کرتی رہیں۔ آخر کار قدامت پسند بھی ان کی محنت اور حوصلے کے آگے جھک گئے۔ اب وہی معاشرہ جو تنقید کرتا تھا ان لڑکیوں پر فخر کرنے لگا ہے۔ ان کی ہمت اور ان کے کام کی تعریف کی جا رہی ہے۔ ان کے بنائے ہوئے لذیذ وازوان کو جب تہواروں میں پیش کیا جاتا ہے تو کھانے والے یقین نہیں کر تے ہیں کہ یہ کسی مرد نے نہیں بلکہ خواتین کے ایک گروپ نے بنایا ہے۔ عشرت نے کہا کہ یہ سب نشنل رورل لایولیہوڈ مشن کی ’امید‘ اسکیم کی مدد سے ممکن ہوا ہے۔
بتا دیں کہ ’امید‘ اسکیم کے تحت دیہی لڑکیوں کا ایک سیلف ہیلپ گروپ تیار کیا جاتاہے۔ اس کے تحت لڑکیوں کو معاش سے متعلق تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ بااختیار ہونے کے بعد اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکیں۔ یہ جموں و کشمیر کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کے لیے بہت مفید ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس مشن کی طرف سے وقتاً فوقتاً ’سرس گرامین میلہ‘ بھی منعقد کیا جاتا ہے۔ اس میلے میں تمام اسٹالز خواتین چلا تی ہیں۔ اس کا مقصد ایک طرف خواتین کو مالی طور پر بااختیار بنانا ہے تو دوسری طرف معاشرے کی قدامت پسند سوچ کو بدلنا ہے۔ اس قسم کے میلے سے ان خواتین کو بھی فائدہ ہوتا ہے جو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور اپنا کاروبار شروع کرنے کا خواب تو دیکھتی ہیں لیکن انہیں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نظر نہیں آتا ہے۔ ایسی خواتین کو اس میلے میں نہ صرف ایک ہی چھت کے نیچے تمام معلومات ملتی ہیں بلکہ انہیں اپنا کام شروع کرنے کے لیے قرضے حاصل کرنے کا طریقہ بھی ملتا ہے۔جموں ڈویژن کے ’باغ بہو‘ علاقے میں، کچھ مہینے پہلے، سرس آجیویکا یوجنا کے تحت 11 روزہ میلہ بھی منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں خواتین کو اپنی مصنوعات اور صلاحیت کو دکھانے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر دیہی روزی روٹی مشن کی ڈائریکٹر اندو کیول چِب نے کہا کہ اس میلے میں جو بھی پروگرام منعقد کیا گیا تھا، اس کا انعقاد خواتین نے ہی کیا تھا۔ ان کے ہاتھوں سے بنی اشیاء سے لے کر کھانے پینے کے پکوان تک تمام کام خواتین ہی کرتی تھیں۔ اس میں ملک کی مختلف ریاستوں سے سیلف ہیلپ گروپس سے وابستہ خواتین نے بشمول جموں و کشمیر کے تمام اضلاع کی خواتین نے اپنی مصنوعات کے ساتھ حصہ لیا۔ یہاں فروخت ہونے والی تمام یونیفارم دیہی خواتین نے تیار کی تھیں۔
اس میلے میں آنے والی 25 سالہ خاتون کریتکا ورما نے کہاکہ ’یہاں کیرالہ، گوا، اتراکھنڈ، راجستھان وغیرہ ریاستوں کی خواتین کی طرف سے تیار کردہ مصنوعات کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے میں اس پروگرام سے بہت متاثر ہوں۔ لایولیہوڈ مشن کے ذریعے خواتین کو بااختیار اور خود انحصار بنانے کا حکومت کا منصوبہ بہت کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔ یہ خواتین کو آگے آنے کا پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔ جو کہ قابل تحسین کام ہے۔ اس طرح کے پروگرام خواتین کو خود کفیل بنانے میں بہت مددگار ثابت ہوں گے۔‘تاہم گاندربل کی عشرت اور ان کی ٹیم کے بنائے ہوئے وازوان کی خوشبو نہ صرف جموں و کشمیر کو زمین پر جنت بنا رہی ہے بلکہ ان ناقدین کو بھی خاموش کر رہی ہے جو لڑکیوں کو کمزور سمجھتے ہیں اورانہیں لگتا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کا دعویٰ صرف لب کاغزی ہے۔ (چرخہ فیچر)