اس بات میں کسی انکار کی گنجائش موجود نہیں کہ شہر سرینگر اور دیگر اضلاع میں اب آوارہ کتوں کی تعداد نے ایک سنگین رُخ اختیار کیا ہوا ہے جس کے نتیجہ میں ہر راہ گیر کی زندگی غیر محفوظ بن گئی ہے۔ شہر سرینگر کی ہی بات کی جائے تو یہاں ہر نکڑ اور چوراہے پر آوارہ کتوں کی بہتات دیکھی جاسکتی ہے۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن جیسے بلدیاتی ادارے کی طرف سے شہر میں قائم کئے گئے ڈمپنگ سائٹوں پر آوارہ کتوں کا میلہ لگارہتا ہے۔ یہاں رات دن آوارہ کتوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے مقامی آبادی کا جینا ہی دوبھر ہوگیا ہے۔ نہ صرف راہ گیروں کو چلنے پھرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ غروب آفتاب کیساتھ ہی یہ کتے بونکنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان ڈمپنگ سائٹوں کے نزدیک رہائش پذیر آبادی نیند سے محروم ہوجاتی ہے۔ نیز شہر سرینگر اور دیگر علاقوں میں ان آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد سے اب چھوٹے بچوں کی نقل و حرکت بھی محدود ہوگئی ہے۔ کئی علاقوں سے آئے روز کتوں کے کاٹنے کے واقعات سامنے آرہے ہیں جو کہ ایک تشویش ناک مسئلہ ہے۔ اس معاملے پر اگرچہ سرینگر اور دیگر اضلاع و قصبہ جات کی آبادی نے حکام بالا سے متعدد مرتبہ گذارشات کیں کہ وہ آوارہ کتوں کی بڑھتی تعداد کو قابو میں لانے کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دیکر لوگوں کی آسان نقل و حمل کو یقینی بنائے تاہم آج تک زبانی جمع خرچ کرنے کے علاوہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا جس پر عوامی حلقے انگشت بدنداں ہیں۔ عوام کا یہ مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پچھلی دو دہائیوں سے لوگ یہ مانگ کررہے ہیں کہ آوارہ کتوں کی بڑھتی نسل پر توجہ دی جائے اور اسے جدید سائنسی بنیادوں پر روکنے کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں۔ سرینگر میونسپل کارپوریشن میں ان دو دہائیوں کے دوران کئی کمشنر آئے اور رخصت ہوئے لیکن عوامی مطالبے پر کبھی بھی سنجیدگی کیساتھ غور وفکر نہیں کیا گیا۔ اسے غیر سنجیدگی سے ہی تعبیر کیا جائے گا کہ ایک طرف ہسپتالوں میں آئے روز کتوں کے کاٹنے سے زخمی افراد رجسٹر ہورہے ہیں تو دوسری جانب متعلقہ حکام یا ادارہ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل سامنے نہیں آرہا ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے سرینگر میونسپل کارپوریشن لوگوں کی شکایات کا بس ایک ہی جواب دیتے آرہے ہیں کہ شہر میں جلد ہی جدید سائنسی بنیادوں پر ڈاگ سٹرلائزیشن مرکز قائم ہوگا لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر کب ہوگا ، اُوپر والا ہی بہتر جانتا ہے۔ جب تک یہ خواب حقیقت کا روپ اختیار نہیں کرتا، شاید تب تک پتہ نہیں کتنے لوگوں کو ان خونخوار کتوں کا نوالہ بننا ہوگا۔ عوام یہ حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے تحفظ سے متعلق حکومتی اداروں کی جانب سے اُٹھائے جارہے اقدامات سے متعلق اَپ ڈیٹ ہوںاور حکام یا متعلقہ ادارہ کی یہ منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی حفاظت سے متعلق اُٹھائے جارہے اقدامات سے لوگوں کو بھر وقت آگاہ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ اداروں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہوں اور ہمارے سڑکوں ، نکڑوں اور چوراہوں پر صرف آوارہ کتوں کا راج قائم نظر آئے۔ حکام بالا کو چاہیے کہ وہ وقت ضائع کئے بغیر سنجیدگی کیساتھ اس اہم اور نازک معاملہ پر سوچ و بچار کریں اور لوگوں کی جائز شکایات کو ایڈرس کریں۔